يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ۚ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ
اے اہل کتاب! بے شک تمھارے پاس ہمارا رسول آیا ہے، جو تمھارے لیے ان میں سے بہت سی باتیں کھول کر بیان کرتا ہے، جو تم کتاب میں سے چھپایا کرتے تھے اور بہت سی باتوں سے در گزر کرتا ہے۔ بے شک تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔
فہم القرآن : (آیت 15 سے 16) ربط کلام : یہود و نصاریٰ کو الگ، الگ خطاب کرنے کے بعد مشترکہ خطاب۔ اب یہود و نصاریٰ کو اکٹھا خطاب کرتے ہوئے نصیحت کی جا رہی ہے کہ اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا آخری رسول آپہنچا ہے جو تورات اور انجیل کی ایسی حقیقتیں منکشف کر رہا ہے جن کو تم نے کلی طور پر چھپا رکھا تھا اور بہت سی تمہاری ذاتی کمزوریوں سے صرف نظر کرتا ہے یقیناً تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا نور اور واضح کتاب پہنچ چکی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی خوشی کا طلب گارہے اور اس کی جستجو کرتا ہے اللہ اپنے حکم سے اسے تاریکیوں سے نکال کر روشن فضا اور سیدھے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ سبل السلام سے مراد وہ سیدھا راستہ ہے جس کی صراط مستقیم کہہ کر وضاحت کی گئی ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت 257میں ” ظلمات“ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا جا چکا ہے کہ دنیا میں شرک و بدعت، رسومات وخرافات اور دیگر گمراہیوں کی شکل میں بہت سے اندھیرے ہیں لیکن روشنی ایک ہی ہے جو ہدایت کی صورت میں ہمیشہ سے ایک ہی چلی آرہی ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کا متلاشی اور ہدایت کے راستے کا راہی بنتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ یقیناً ہدایت سے سرفراز فرماتا ہے۔ یہاں ایک مفسر نے اپنے باطل عقیدہ کو ثابت کرنے کے لیے تفسیر ابن جریر سے ایک غیر مستند قول نقل کیا ہے کہ نور سے مراد رسول محترم (ﷺ) کی ذات ہے جبکہ ایک معمولی گرائمر جاننے والا شخص بھی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ﴿ نوروکتاب مبین﴾ سے مراد ایک ہی چیز ہے۔ ﴿یھدی بہ﴾ میں ضمیر تثنیہ کی بجائے واحد کی استعمال کی گئی ہے۔ اس لیے اہل علم نے اس کی تفسیر کتاب مبین کی ہے اس آیت میں قرآن کو واضح طور پر نور قرار دیا ہے۔ جہاں تک نبی اکرم (ﷺ) کی ذات اقدس کا معاملہ ہے۔ آپ بشر اور انسان تھے۔ مسائل : 1۔ نبی معظم (ﷺ) نے دین کو کھول کر بیان فرمادیا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو قرآن مجید کے ذریعے ہدایت دیتا ہے۔ 3۔ قرآن مجید ہدایت کے لیے نور ہے۔ 4۔ اہل کتاب اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات چھپاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : نور سے مراد : 1۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور (ہدایت دینے والا) ہے۔ (النور :35) 2۔ اللہ ہی اندھیرے اور روشنی پیدا کرنے والا ہے۔ (الانعام :1) 3۔ کفار اور مشرک اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں۔ (التوبۃ:32) 4۔ اندھیرا اور نور برابر نہیں ہو سکتے۔ ( الرعد :16) 5۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے انھیں اندھیروں سے نور کی طرف لاتا ہے۔ (البقرۃ:257) 6۔ نبی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتے ہیں۔ (ابراہیم :5) 7۔ اللہ جس کی چاہتا ہے اپنے نور (قرآن) کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (النور :35) تمام انبیاء (علیہ السلام) بشر اور بندے تھے : 1۔ انبیاء (علیہ السلام) کا اقرار کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم :11) 2۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے وہ بشر ہی تھے۔ (النحل :43) 3۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) کا اعتراف کہ میں تمھاری طرح بشر ہوں۔ (الکہف :110) 4۔ ہم نے آدمیوں کی طرف وحی کی۔ (یوسف :109) 5۔ کسی بشر کو ہمیشگی نہیں ہے۔ (الانبیاء :34)