وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ اللَّهُ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
اور ان لوگوں سے جنھوں نے کہا بے شک ہم نصاریٰ ہیں، ہم نے ان کا پختہ عہد لیا، پھر وہ اس کا ایک حصہ بھول گئے جس کی انھیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک دشمنی اور کینہ وری بھڑکا دی اور عنقریب اللہ انھیں اس کی خبر دے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔
فہم القرآن : ربط کلام : یہودیوں کے بعد عیسائیوں کے کردار کا بیان۔ اہل کتاب اور بنی اسرائیل سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں لیکن کبھی کبھی اہل کتاب اور بنی اسرائیل سے مراد صرف یہودی ہوتے ہیں۔ یہ فرق متعلقہ آیات کے سیاق و سباق دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے، یہاں پہلی آیات میں یہودیوں کو مخاطب کیا گیا تھا اور اب عیسائیوں سے خطاب ہو رہا ہے جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ جو عہد یہودیوں سے لیا گیا تھا وہی عہد عیسائیوں سے بھی لیا گیا۔ انجیل سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا فرمان ہے کہ میں تورات کی تکمیل اور موسیٰ (علیہ السلام) کی تائید کے لیے آیا ہوں۔ اس بنا پر یہاں فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں انھوں نے بھی اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتے ہوئے انجیل میں تحریف اور اس میں نازل شدہ نصیحتوں کو یکسر فراموش کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوئی اسی طرح عیسائی بھی مستوجب عذاب قرار پائے۔ جو اللہ کی کتاب لوگوں کو متحد رکھنے کے لیے نازل ہوئی تھی جب اس میں تغیر و تبدّل کردیا گیا تو وہ ناقابل اعتمادبن گئی اب اس کا منطقی نتیجہ تھا کہ عیسائی بھی یہودیوں کی طرح کئی فرقوں میں بٹ گئے۔ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اب ان کی باہمی مخاصمت اور عداوت قیامت تک باقی رہے گی جس کا انجام اللہ تعالیٰ ان کے سامنے لائے گا۔ باہمی عدوات سے مراد یہودیوں اور عیسائیوں کی عداوت بھی ہو سکتی ہے۔ (عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) افْتَرَقَتِ الْیَہُودُ عَلَی إِحْدَی وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ وَافْتَرَقَتِ النَّصَارَی عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَإِحْدَی وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ وَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِی عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِی النَّار قیلَ یَا رَسُول اللَّہِ مَنْ ہُمْ قَالَ الْجَمَاعَۃُ ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب افْتِرَاقِ الأُمَم] ” حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا یہودی اکہتر فرقوں میں بٹے تھے ان کے ستر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور عیسائی بہتر فرقوں میں بٹے تھے ان میں سے اکہتر جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے اور ایک جنتی، صحابہ نے عرض کی جنت میں جانے والے کون ہیں آپ نے فرمایا وہ جماعت (جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلنے والے) ہے۔“ مسائل : 1۔ یہودیوں کی طرح عیسائیوں سے بھی پختہ عہد لیا گیا۔ 2۔ یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ 3۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو آشکار فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کن لوگوں سے محبت کرتا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ پر ہیز گاروں سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران :76) 2۔ بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (الممتحنۃ:8) 3۔ غصہ پینے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران :134) 4۔ اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران :146) 5۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران :148) 6۔ اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (التوبۃ:108) 7۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اللہ کی راہ میں منظم ہو کر لڑتے ہیں۔ (الصف :4)