وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی اس پتھر پر مار، تو اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، بلاشبہ سب لوگوں نے اپنی پینے کی جگہ معلوم کرلی، کھاؤ اور پیو اللہ کے دیے ہوئے میں سے اور زمین میں فساد کرتے ہوئے دنگا نہ مچاؤ۔
فہم القرآن : (آیت 60 سے 61) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ دسواں احسان : قبائل کی تعداد کا لحاظ رکھتے ہوئے ٹھنڈے، میٹھے پانی کے بارہ چشمے جاری فرمائے لیکن اس قوم نے صبح وشام من وسلوی اور ٹھنڈا پانی ملنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی۔ قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے کہ وہ کسی واقعہ کو زیب داستان اور حکایت گوئی کے لیے بیان نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کے سوا باقی تمام واقعات کو مختلف اجزاء کی صورت میں موقع محل کے مطابق بیان کیا گیا ہے اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ کسی واقعہ کی کڑیوں اور اجزا کو تقدم و تاخر کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ایک خاص نصیحت اور کیفیت پیدا کردی جاتی ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی کیا گیا ہے تاکہ اس واقعہ میں یہودیوں کے مظالم اور نافرمانیوں کی فہرست یکجا بیان کی جائے قرآن کی تلاوت کرنے والا شخص فاسقوں اور نافرمانوں کی سرشت سے مکمل طور پر آگاہ ہو سکے۔ چنانچہ صحرائے سینا میں جب موسیٰ (علیہ السلام) سے پانی کا مطالبہ کیا گیا تو بنی اسرائیل کے قبائل کی تعداد کے مطابق بارہ چشمے جاری کیے گئے اس لیے کہ یہ پانی پینے پلانے پر جھگڑا کرنے کی بجائے پر امن طریقے سے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور دشمن کے خلاف بھرپور انداز میں جہاد کی تیاری کرسکیں لہٰذا حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اکل و شرب سے لطف اندوزی حاصل کرولیکن دنگا فساد سے بچو۔ اس حکم کے باوجود ناہنجار قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کر ڈالا کہ ایک ہی قسم کے کھانے پر اکتفا کرنا ہمارے لیے ہرگز ممکن نہیں ہمیں تو زمین کی پیدوار، ساگ، ترکاری، کھیرا، ککڑی، گیہوں، لہسن، پیاز اور دال چاہیے۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا کہ تم ادنیٰ کو اعلیٰ اور بہتر کو کم تر کے ساتھ بدلنا چاہتے ہو؟ اس مطالبہ سے باز آجاؤ اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے بچو لیکن بنی اسرائیل اپنے مطالبہ پر مصر رہے جس کے نتیجے میں انہیں حکم ہوا کہ شہر میں داخل ہوجاؤ جو کچھ تم نے چاہا ہے وہ تمہیں مل جائے گا۔ لیکن یاد رکھنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری اور ناشکری کی وجہ سے تم پر ذلت اور غربت مسلط کردی گئی ہے اس طرح وہ اللہ کے غضب اور مسکینی کے مستحق ٹھہرے۔ کیونکہ یہ بار بار اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرنے والے اور انبیا کو قتل کرنے والے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی ارب پتی ہونے کے باوجود نہ سیر چشم ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی ہوس کی آگ ماند پڑتی ہے اور دنیا میں اس قوم کو کبھی قرار نہیں حاصل ہوا۔ کبھی بخت نصر نے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا اور کبھی اہل روم نے انہیں اپنے ملک سے نکال دیا۔ سورۃ آل عمران آیت 112میں وضاحت فرمائی ہے کہ انہیں دنیا میں قرار دو ہی وجہ سے حاصل ہوسکتا ہے اللہ کے ہو کر رہیں یا پھر دوسروں کے دست نگر ہو کر زندگی بسر کریں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی مدت کے بعد یہودی اسرائیل کے نام پر امریکہ اور یورپ کے سیاسی گداگر بلا کر اسرائیل کی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ خوردونوش کی فراوانی عطا فرمائے تو دنگا فساد کرنے کی بجائے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ 2۔ اعلیٰ کی بجائے ادنیٰ چیز کی طلب کرنا مغضوب قوم کا طریقہ ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کرنے والے لوگ دنیا میں ذلیل اور آخرت کو سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔