يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک (دھو لو) اور اگر جنبی ہو تو غسل کرلو اور اگر تم بیمار ہو، یا کسی سفر پر، یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو، یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو، پھر کوئی پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو، پس اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے اور لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور تاکہ وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرے، تاکہ تم شکر کرو۔
فہم القرآن : ربط کلام : غذائی پاکیزگی کے بعد جسمانی طہارت کا حکم۔ سورۃ النساء کی آیت 43میں غسل اور تیمم کا مسئلہ بیان کیا گیا تھا۔ اب حکم ہوا ہے کہ اے صاحب ایمان لوگو! جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لیا کرو۔ اپنے سروں کا مسح کیا کرو اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا کرو۔ اگر حالت جنابت میں ہو تو غسل کرکے پاک ہوجاؤ۔ کوئی شخص بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا کوئی قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو یا اس نے اپنی بیوی سے مجامعت کی ہو اور اسے پانی نہ ملے تو پاک مٹی پر ہاتھ مار کر منہ اور چہرے کا مسح کرو۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر سختی کا ارادہ نہیں رکھتا وہ تمہیں پاک کرنے اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کرنا چاہتا ہے تاکہ مسلمان شکر گزار بن جائیں۔ وضو کی حالت میں بیوی کے ساتھ کس حد تک لمس جائز ہے ؟: آپ (ﷺ) نے وضو کے بعد اپنی بیوی سے بوس و کنار کیا تاکہ قرآن کا مفہوم متعین ہو اور امت کے لیے سہولت نکل آئے۔ (عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبَّلَ بَعْضَ نِسَائِہٖ ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الصَّلا ۃِ وَلَمْ یَتَوَضَّأْ) [ رواہ البخاری : کتاب الطہارۃ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ بلاشبہ نبی اکرم (ﷺ) نے اپنی کسی زوجہ محترمہ سے بوس و کنار کیا۔ پھر دوبارہ وضو کیے بغیر ہی نماز ادا کی۔“ وضو کا طریقہ : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لاَ صَلاَۃَ لِمَنْ لاَ وُضُوءَ لَہُ وَلاَ وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ یَذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ تَعَالَی عَلَیْہِ )[ رواہ ابو داؤد : باب التَّسْمِیَۃِ عَلَی الْوُضُوءِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی اور بسم اللہ کے بغیر وضو نہیں ہوتا۔“ (عن عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ (رض) اَنَّہٗ دَعَا بِإِنَاءٍ فَأَفْرَغَ عَلٰی کَفَّیْہِ ثَلَاثَ مِرَارٍ فَغَسَلَہُمَا ثُمَّ أَدْخَلَ یَمِینَہُ فِی الْإِنَاءِ فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثُمَّ غَسَلَ وَجْہَہُ ثَلَاثًا وَیَدَیْہِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِہٖ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْہِ ثَلَاثَ مِرَارٍ إِلَی الْکَعْبَیْنِ ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِی ہٰذَا ثُمَّ صَلٰی رَکْعَتَیْنِ لَا یُحَدِّثُ فیہِمَا نَفْسَہُ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ) [ رواہ البخاری : کتاب الو ضوء، بَاب الْوُضُوءِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا] ” حضرت عثمان بن عفان (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے پانی والا برتن منگوایا۔ اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالتے ہوئے انھیں تین مرتبہ دھویا۔ پھر اپنے دائیں ہاتھ سے برتن سے پانی لے کر کلی کی اور ناک صاف کیا۔ پھر تین مرتبہ اپنے چہرے کو دھونے کے ساتھ بازوؤں کو کہنی تک دھویا۔ پھر سر کا مسح کرتے ہوئے اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک تین مرتبہ دھویا۔ پھر کہا رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا تھا کہ جس نے میرے وضو جیسا وضو کیا پھر دو رکعت نماز ادا کی۔ اس دوران اس نے دل میں کسی سے گفتگو نہ کی تو اس کے پہلے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔“ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ قَالَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی مِنْ التَّوَّابِینَ وَاجْعَلْنِی مِنْ الْمُتَطَہِّرِینَ فُتِحَتْ لَہُ ثَمَانِیَۃُ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ یَدْخُلُ مِنْ أَیِّہَا شَاءَ )[ رواہ الترمذی : باب فیما یقال بعد الوضوء] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جو شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر کہتا ہے میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ ! مجھے توبہ کرنے والوں میں اور پاک صاف رہنے والوں میں شامل فرما اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں جہاں سے چاہے داخل ہوجائے۔“ تیمم کا طریقہ : ( عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزٰی (رض) عَنْ أَبِیہٖ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) فَقَالَ إِنِّی أَجْنَبْتُ فَلَمْ أُصِبْ الْمَاءَ فَقَالَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَمَا تَذْکُرُ إِنَّا کُنَّا فِی سَفَرٍ أَنَا وَأَنْتَ فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّکْتُ فَصَلَّیْتُ فَذَکَرْتُ للنَّبِیِّ (ﷺ) فَقَال النَّبِیُّ (ﷺ) إِنَّمَا کَانَ یَکْفِیکَ ہٰکَذَا فَضَرَبَ النَّبِیُّ (ﷺ) بِکَفَّیْہِ الْأَرْضَ وَنَفَخَ فیہِمَا ثُمَّ مَسَحَ بِہِمَا وَجْہَہُ وَکَفَّیْہِ)[ رواہ البخاری : کتاب التیمم، باب الْمُتَیَمِّمُ ہَلْ یَنْفُخُ فیہِمَا ] ” سعید بن عبدالرحمن بن ابزی (رض) اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب (رض) کے پاس آیا تو اس نے کہا میں جنبی ہوگیا ہوں۔ میرے پاس پانی نہیں ہے، حضرت عمار بن یاسر (رض) نے عمربن خطاب (رض) سے کہا کیا آپ کو یاد ہے کہ ہم دونوں ایک سفر میں تھے آپ نے نماز نہیں پڑھی تھی اور میں نے مٹی پر لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھ لی تھی میں نے یہ بات نبی اکرم (ﷺ) سے کی تو نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا آپ کو صرف اتنا ہی کافی تھا نبی اکرم (ﷺ) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا۔ ان میں پھونکا اور پھر ان دونوں کو اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لیا۔“ مسائل : 1۔ نماز کے لیے وضو کرنا لازم ہے۔ 2۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو پاک صاف دیکھنا چاہتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مشقت میں نہیں ڈالتا۔