الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
آج تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئیں اور ان لوگوں کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے جنھیں کتاب دی گئی اور تمھارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور مومن عورتوں میں سے پاک دامن عورتیں اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، جب تم انھیں ان کے مہر دے دو، اس حال میں کہ تم قید نکاح میں لانے والے ہو، بدکاری کرنے والے نہیں اور نہ چھپی آشنائیں بنانے والے اور جو ایمان سے انکار کرے تو یقیناً اس کا عمل ضائع ہوگیا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں سے ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : حرام اور حلال کی مزید وضاحت۔ آج کے دن سے مراد نو ذوالحجہ ہے جس کے بارے میں پیچھے بیان ہوچکا ہے کہ یہ دن تکمیل دین، اتمام نعمت اور مسلمانوں کے لیے شوکت اسلام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں یہ بھی اعلان ہوا کہ باقی حلال چیزوں کے ساتھ تمہیں یہ بھی اجازت دی جاتی ہے کہ اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ اہل کتاب کا کھانا جس طرح کا بھی ہو وہ مسلمانوں کے لیے جائز ہوگا۔ بلکہ اس میں اسلام کی حلال و طیب کی شرائط کا ہونا ضروری ہے۔ جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ چیز نہ تو غیر اللہ کے نام پر پکائی گئی ہو اور نہ ہی ذبح کرتے وقت کسی غیر کا نام لیا گیا ہو۔ اہل کتاب سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں جو آسمانی کتابوں پر یقین رکھتے ہوں بے شک وہ عمل اور عقیدے کے اعتبار سے کمزور ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ جن اہل کتاب کے متعلق اجازت دی گئی ہے ان کے جرائم کی قرآن مجید طویل فہرست پیش کرتا ہے۔ عقیدہ میں شرک کی آمیزش، کتاب اللہ میں تحریف کرنے والے اور سود خوربھی تھے۔ تیسری اجازت اس بات کی دی گئی کہ اہل کتاب کی باکردار اور با حیا عورتوں سے مسلمان کے لیے نکاح کرنا جائز ہے بشرطیکہ ان کا حق مہر ادا کیا جائے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے جاری کیے ہوئے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی وہ کفر کا مرتکب ہوا۔ اس کے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور آخرت میں وہ نقصان پانے والوں میں سے ہوگا۔ اعمال ضائع ہونے سے یہ بھی مراد ہے کہ بد کردار عورت سے نکاح کرنے میں آدمی کا وقار، عزت اور غیرت ختم ہوجاتی ہے۔ ایسی عورت سے جو اولاد ہوگی اسے بھی تشکیک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ جہاں تک اہل کتاب کی عورت سے نکاح کرنے کا تعلق ہے وہ اتنا کھلا اجازت نامہ نہیں جس طرح کہ لوگوں نے اپنی عیاشی کے لیے سمجھ رکھا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک مثال ہی کافی ہونی چاہیے۔ ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں شقیق بن سلمہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان (رض) جب مدائن پہنچے تو وہاں ایک یہودی عورت سے نکاح کرلیا۔ حضرت فاروق اعظم (رض) کو اس کی اطلاع ملی تو ان کو خط لکھا کہ اس کو طلاق دیدو۔ حضرت حذیفہ (رض) نے جواب میں لکھا کہ کیا وہ میرے لیے حرام ہے، تو پھر امیر المومنین فاروق اعظم (رض) نے جواب میں تحریر فرمایا کہ میں حرام نہیں کہتا لیکن ان لوگوں کی عورتوں میں عام طور پر عفت و پاکدامنی نہیں ہے۔ اس لیے مجھے خطرہ ہے کہ آپ لوگوں کے گھرانہ میں اس راہ سے فحاشی و بدکاری داخل نہ ہوجائے۔ امام محمد بن حسن (رح) نے کتاب الآثار میں اس واقعہ کو بروایت امام ابو حنیفہ اس طرح نقل کیا ہے کہ دوسری مرتبہ فاروق اعظم (رض) نے جب حضرت حذیفہ (رض) کو خط لکھا تو اس کے یہ الفاظ تھے : (اعزم علیک ان لا تضع کتابی حتّٰی تخلی سبیلھا فانی اخاف ان یقتدیک المسلمون فیخنارو النساء اہل الذمۃ لجمالھن وکفٰی بذلک فتنۃ لنساء المسلمین۔) (کتاب الآثار، ص :156) ” یعنی آپ کو قسم دیتا ہوں کہ میرا یہ خط اپنے ہاتھ سے رکھنے سے پہلے ہی اس کو طلاق دے کر آزاد کر دو۔ کیونکہ مجھے یہ خطرہ ہے کہ دوسرے مسلمان بھی آپ کی اقتدا کریں گے اور اہل ذمہ اہل کتاب کی عورتوں کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے مسلمان عورتوں پر ترجیح دینے لگیں گے۔ مسلمان عورتوں کے لیے اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی۔“ مؤرخ اس کے جواب میں لکھتا ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) نے امیر المومنین کا خط پڑھتے ہی اپنی پسندیدہ بیوی کو طلاق دے دی۔ مسائل : 1۔ اہل کتاب کا کھانا حلال ہے۔ 2۔ اہل کتاب کا ذبیحہ بھی حلال ہے۔ 3۔ اہل کتاب کی عورتوں سے مشروط نکاح جائز ہے۔ 4۔ ایمان لانے سے انکار کرنے والے آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔