سورة المآئدہ - آیت 4

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ کہہ دے تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور شکاری جانوروں میں سے جو تم نے سدھائے ہیں، (جنھیں تم) شکاری بنانے والے ہو، انھیں اس میں سے سکھاتے ہو جو اللہ نے تمھیں سکھایا ہے تو اس میں سے کھاؤ جو وہ تمھاری خاطر روک رکھیں اور اس پر اللہ کا نام ذکر کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : حرام کے بعد حلال کی وضاحت۔ سابقہ آیات میں حرام کی ایک فہرست پڑھی گئی ہے اس لیے سوال پیدا ہوا کہ یہ چیزیں تو حرام ہیں لیکن حلال کونسی ہیں ؟ اس کے بارے میں وضاحت نازل ہوئی کہ تمہارے لیے ہر طیب چیز حلال کردی گئی ہے۔ سابقہ مذاہب میں یہ تھا کہ جو چیزیں ان کے مذہب میں حلال تھیں ان کے سوا باقی سب حرام تھا۔ دین اسلام نے اس کے خلاف فارمولا پیش فرمایا کہ حرام کے علاوہ تمام چیزیں اس شرط پر حلال ہیں کہ وہ پاک ہوں۔ پاک کے بارے میں اہل علم نے وضاحت کی ہے کہ جو شریعت کے کسی اصول کے تحت حرام نہ ہوں اور اسے فطرت سلیم کھانا پسند کرے۔ وہ جانور بھی حلال ہوگا جو شکاری کتے کے ذریعے شکار کیا گیا ہو۔ جسے تم نے سدھا یاہو۔ اللہ تعالیٰ کے سدھانے سے یہاں مرادشکار کرنے کے اصول و ضوابط ہیں۔ جس کی تین بنیادی شرائط ہیں۔ 1۔ کتایا باز سدھا یا ہوا ہو۔ جس کی فقہاء نے یہ صفت بیان کی ہے کہ جب اسے شکار پر چھوڑا جائے تو وہ شکار کرے اور جب اسے روکا جائے تو رک جائے۔ یہاں تک کہ اگر وہ شکار پکڑنے کے لیے دوڑے یا اڑے۔ مالک اسے رک جانے کا اشارہ دے تو وہ واپس آجائے۔ 2۔ شکار خود کھانے کی بجائے مالک کے لیے شکار کرے اگر اس نے اس میں خود کھالیا تو وہ سدھایا ہوا تصور نہیں ہوگا اور نہ اس کا کیا ہوا شکار حلال ہوگا۔ 3۔ اسے چھوڑتے وقت ” بسم اللّٰہ واللّٰہ اکبر“ پڑھا گیا ہو۔ اس صورت میں شکار مر جائے تو پھر بھی حلال تصور ہوگا۔ یہی حکم بندوق سے شکار کرنے کا ہے۔ اس بات سے علم کی فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جس کتے کے ایک دفعہ برتن چاٹنے سے اسے ایک دفعہ مٹی کے ساتھ اور چھ مرتبہ پانی کے ساتھ دھونا پڑتا ہے۔ صرف علم کی بنیاد پر وہ اپنی نسل سے اس قدر ممتاز ہوا کہ اس کے ہاتھوں مرا ہوا جانور بھی حلال قرار پایا ہے۔ آیت کے آخر میں ﴿واتقو اللّٰہ﴾ اور ﴿سریع الحساب﴾ کے الفاظ استعمال فرما کر شکار کرنے والوں کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شکار ان شرائط پر پورا نہ اترے اور تم گوشت خوری کے شوق میں یونہی نوش کر جاؤ۔ ایسا کرنا حرام اور اللہ تعالیٰ کی سخت نافرمانی ہوگی۔ لہٰذا یاد رکھو اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب چکانے والا ہے۔ اس سے ڈرتے رہو واتقواللّٰہ کا یہ مفہوم بھی اخذ کیا گیا ہے کہ شکار کے جنون میں آکر فرض نمازوں سے غافل نہ ہونا جیسا کہ عام شکاری سارا دن شکار کے پیچھے دوڑتے ہوئے نماز کا خیال نہیں کرتے۔ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ إِذَا أَرْسَلْتَ کَلْبَکَ وَسَمَّیْتَ فَأَمْسَکَ وَقَتَلَ فَکُلْ وَإِنْ أَکَلَ فَلَا تَأْکُلْ فَإِنَّمَا أَمْسَکَ عَلَی نَفْسِہٖ وَإِذَا خَالَطَ کِلَابًا لَمْ یُذْکَرْ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہَا فَأَمْسَکْنَ وَقَتَلْنَ فَلَا تَأْکُلْ فَإِنَّکَ لَا تَدْرِی أَیُّہَا قَتَلَ وَإِنْ رَمَیْتَ الصَّیْدَ فَوَجَدْتَّہُ بَعْدَ یَوْمٍ أَوْ یَوْمَیْنِ لَیْسَ بِہٖ إِلَّا أَثَرُ سَہْمِکَ فَکُلْ وَإِنْ وَقَعَ فِی الْمَاءِ فَلَا تَأْکُلْ) ” حضرت عدی بن حاتم (رض) نبی معظم (ﷺ) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا جب تو اللہ کا نام لے کر کتا شکار کے لیے چھوڑے تو وہ شکار کرکے تیرے لیے پکڑے رکھے تو اس کو کھالو۔ اگر وہ کتا اس کو تھوڑا بہت کھالے تو پھر نہ کھانا۔ کیونکہ اس نے اپنے لیے شکار کیا ہے۔ اگر اس کے ساتھ کوئی اور کتا شامل ہوجائے جس کو اللہ کا نام لے کر نہیں چھوڑا گیا اور وہ دونوں شکار کریں تو اس سے نہ کھانا کیونکہ تم نہیں جانتے کہ کس نے شکار کیا ہے۔ اگر تم تیر کے ساتھ شکار کرو اور تم اپنے شکار کو ایک یا دو دن بعد پاؤ (بشرطیکہ وہ کھانے کے قابل ہو) تو اگر اس پر صرف تیرے ہی تیر کا نشان ہے تو اس کو کھالو اور اگر وہ پانی میں گرگیا ہو تو پھر نہ کھانا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح، ] مسا ئل : 1۔ تمام پاک و صاف چیزیں حلال ہیں۔ 2۔ سدھائے ہوئے جانور کا شکار حلال ہے۔ 3۔ شکار کرتے ہوئے بھی بسم اللہ اللہ اکبرپڑھنا ضروری ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے احتساب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔