يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَكْبَرَ مِن ذَٰلِكَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ فَعَفَوْنَا عَن ذَٰلِكَ ۚ وَآتَيْنَا مُوسَىٰ سُلْطَانًا مُّبِينًا
اہل کتاب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ان پر آسمان سے کوئی کتاب اتارے، سو وہ تو موسیٰ سے اس سے بڑی بات کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے کہا ہمیں اللہ کو کھلم کھلا دکھلا، تو انھیں بجلی نے ان کے ظلم کی وجہ سے پکڑ لیا، پھر انھوں نے بچھڑے کو پکڑ لیا، اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آ چکی تھیں، تو ہم نے اس سے در گزر کیا اور ہم نے موسیٰ کو واضح غلبہ عطا کیا۔
فہم القرآن : ربط کلام : اہل کتاب موقعہ بموقعہ مختلف الفاظ اور انداز میں نبی کریم (ﷺ) کی نبوت پر اعتراض اٹھاتے رہتے تھے اسی سبب سے وہ آپ کی نبوت کا انکار اور انبیاء کے درمیان تفریق کرتے تھے جس کا سورۃ الانعام، آیت : 124میں یہ جواب دیا گیا۔ کسی کو نبوت عطا کرنا اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہوا کرتا ہے جس کے بارے وہی جانتا ہے کہ کون سے کندھے بار نبوت اٹھا سکتے ہیں اور کس کا سینہ انوار نبوت کو سما سکتا ہے اور کون سی زبان اس کا حق ادا کرسکتی ہے اہل کتاب کے اعتراض کا مقصد یہ تھا کہ نبوت ہماری بجائے اسماعیل (علیہ السلام) کے خاندان کو نہیں ملنی چاہیے تھی اب اہل کتاب اس بات کو دوسرے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ اے محمد کتاب تجھ پر نازل ہوئی ہے اور ہم پر نہیں اتری۔ ہم تب ایمان لائیں گے کہ جب ہم پر کتاب نازل کی جائے اور اس میں ہمیں براہ راست ایمان لانے کی دعوت دی جائے۔ یہاں اس بیہودہ سوال کا جواب فقط اتنا ہی دیا گیا ہے کہ یہ لوگ اس سے بڑھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو لایعنی سوال کرچکے ہیں۔ جب کوہ طور سے موسیٰ (علیہ السلام) لکھی ہوئی کتاب ان کے پاس لائے تو یہ کہنے لگے کہ ہم اس کتاب کی تصدیق تب ہی کرسکتے ہیں کہ جب ہم براہ راست اللہ تعالیٰ کو خود دیکھ لیں ہمیں یقین ہو کہ واقعی ہی اللہ تعالیٰ کوہ طور پر آ کر آپ سے ہم کلامی کرتا ہے تب ان کے گستاخانہ مطالبے کی پاداش میں کڑک نے انہیں آ لیا اور وہ اس وقت مر گئے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے صلہ میں انہیں دوبارہ زندہ کیا گیا۔ (الاعراف :155) اس جواب کے ساتھ ان کے جرائم پر مشتمل درج ذیل فرد جرم عائدکر دی گئی جس میں نبی کریم (ﷺ) کو تسلی دی گئی ہے کہ ایسی باتیں کرنا ان کا پرانا وطیرہ ہے اس کے ساتھ بھی مسلمانوں کو بے مقصد سوال کرنے سے احتراز کرنے کی نصیحت کی گئی ہے اور یہود کو انتباہ کیا گیا ہے کہ باز آجاؤ تمہاری بھلائی اسی میں ہے ورنہ تمہارے آباؤ اجداد کی طرح تمہیں بھی نیست و نابود کردیا جائے گا۔ ہاں تم وہی لوگ ہو جنہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے بڑے بڑے معجزات دکھائے جن میں موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کا چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکنا، لاٹھی کا اژدہا بن کر جادوگروں کی رسیوں اور لاٹھیوں کو نگل جانا، ملک کے جادو گر جو مصر کے چنے ہوئے دانشور تھے ان کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانا، بنی اسرائیل یعنی تمہارا بحفاظت دریا عبور کرنا، فرعون اور اس کے لشکروں کا غرقاب ہونا۔ ان عظیم معجزات کے باوجود جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طور پر گئے تو تمہارا بچھڑے کو مشکل کشا اور معبود بنا ناان بڑے جرائم کے باوجودہمارا تم کو معاف کردینا۔ یہودیوں کی گستاخیاں اور بے ہودہ اعتراض : 1۔ سرور دوعالم (ﷺ) پر اعتماد اور یقین کرنے کے بجائے اپنے آپ پر کتاب نازل کیے جانے کا مطالبہ کرنا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کو براہ راست دیکھنے کا مطالبہ کرنا۔ 3۔ بچھڑے کو معبود بنانا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے پختہ عہد کو توڑنا۔ 5۔ سجدہ کرنے کی بجائے کلام اللہ کو بدلنا اور تمرداختیار کرنا۔ 6۔ ہفتہ کے دن مچھلیاں پکڑنا۔ 7۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرنا۔ 8۔ انبیاء (علیہ السلام) کو ناحق قتل کرنا۔ 9۔ تعصب اور حسد کی وجہ سے اپنے دلوں کو ملفوف قرار دینا۔ 10۔ حضرت مریم علیہا السلام پر بدکاری کا الزام لگانا۔ 11۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا دعوی کرنا۔ مسائل : 1۔ بے مقصد سوال کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ کرنا پرلے درجے کی گستاخی ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو واضح دلائل عطا فرمائے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو بار بار معاف کیا۔ تفسیر بالقرآن : یہودیوں کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبات : 1۔ ہم اللہ کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتے ہیں۔ (البقرۃ:55) 2۔ ہم ایک کھانے پر اکتفا نہیں کرسکتے۔ (البقرۃ :61) 3۔ گائے کے بارے میں بار بار سوال کرنا۔ (البقرۃ:68) 4۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم کے لیے پانی طلب کرنا۔ (البقرۃ:60) 5۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مقتول کے بارے میں سوال کرنا۔ (البقرۃ:72) 6۔ قوم کا مختلف عذابوں سے نجات کے لیے درخواست کرنا۔ (الاعراف :134)