يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کے لیے اپنے خلاف ایک واضح حجت بنا لو۔
فہم القرآن : (آیت 144 سے 145) ربط کلام : کفار کے کفر اور منافقین کے گھناؤنے کردار کی وجہ سے قرآن مجید مسلمانوں کو بار بار حکم دیتا ہے کہ ان کے ساتھ قلبی دوستی سے اجتناب کیا جائے کیونکہ یہ غیرت ایمانی اور ملّی مفاد کے خلاف ہے۔ کفار اور منافقین کے ساتھ معاشرتی، سیاسی اور کاروباری تعلقات رکھے جاسکتے ہیں لیکن انہیں اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھنا مسلمانوں کا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا کیونکہ یہ ملت اسلامیہ کے نقصان کے خواہاں، اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں جس کا مشاہدہ میدان احد سے لے کر ہر دور میں کیا گیا ہے۔ 2003 ء میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کا فیصلہ کیا تو ابتداء میں روس سمیت کئی ملکوں نے مخالفت کی لیکن جونہی امریکہ نے انہیں مفادات کا لالچ دیا تو روس عراق کا پرانا حلیف ہونے کے باوجود امریکہ کے ساتھ کھڑا ہوا۔ اس طرح پوری دنیا کا کفر مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگیا۔ جب مسلمان کسی نکتہ پر اکٹھا ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو کفار مسلمانوں کو تنگ نظری کا طعنہ دیتے ہیں حالانکہ ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم 1939 میں برطانیہ نے اپنے کئی شہریوں کو اس لیے حراست میں رکھا تھا کہ ان کے تعلقات جرمن قوم کے ساتھ پائے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ متحدہ ہندوستان کے وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن کا والد جو برطانوی بحری فوج کا اعلیٰ افسر تھا اسے بھی زیر حراست رکھا گیا کیونکہ وہ جاپان نژ اد تھا۔ حتی کہ جرمنوں کے ساتھ اس جنگ میں امریکہ نے اپنے ملک میں بعض لوگوں کے ساتھ بھی یہی رویّہ اختیار کیا جب کہ اسلام کفار کے ساتھ دلی دوستی اور کفار کو مسلمانوں سے مقدم سمجھنے کے سوا ان کے ساتھ سیاسی معاشرتی اور کاروباری تعلقات رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ مسائل : 1۔ کفار کو دوست بناکر ایمانداروں کو اپنے خلاف حجّت قائم نہیں کرنی چاہیے۔ 2۔ منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے اور کوئی ان کی مدد نہیں کرسکے گا۔