بَشِّرِ الْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
منافقوں کو خوش خبری دے دے کہ بے شک ان کے لیے ایک درد ناک عذاب ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : منافق کفر اور ایمان کے درمیان رہتا ہے لیکن آخر میں اس کا انجام کفر پر ہوتا ہے۔ پہلے پارے کے دوسرے رکوع کی تفسیر میں واضح کیا جاچکا ہے کہ منافق کا لفظ نفق سے نکلا ہے۔ جس کا معنی ہے چوہے کی ایسی بل جس کے دو منہ ہوں۔ جب تک دونوں طرف سے بل بند نہ کی جائے چوہا قابو نہیں آسکتا۔ یہی حالت منافق کی ہوتی ہے اسے مسلمانوں کی طرف سے فائدہ ہو تو اسلام اسلام کرتا ہے اگر کفار کی طرف سے فائدہ پہنچنے کی امید ہو تو ان کا طرف دار ہوجاتا ہے۔ گویا کہ منافق عقیدے کے اعتبار سے کذّاب، کردار کے لحاظ سے دغا باز اور اخلاق کے حوالے سے مکّار اور مفاد پرست ہوتا ہے۔ اگلی آٹھ آیات میں منافق کی آٹھ بد ترین عادتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس بنا پر اسے خوفناک عذاب کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ (1) بار بار کفر اختیار کرنا۔ (2) مسلمانوں کی کامیابی کا مخالف ہونا اور کفار سے دلی ہمدردی رکھنا۔ (3) ایمان میں ہمیشہ متذبذب رہنا۔ (4) اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر کرنا اور ان کا مذاق اڑانا۔ (5) اللہ اور اس کے رسول کو دھوکہ دینے کی کوشش کرنا۔ (6) جان بوجھ کر نماز میں غفلت اور سستی اختیار کرنا۔ (7) اللہ تعالیٰ کے بجائے کفار سے عزت طلب کرنا۔ (8) نماز اور نیکی کے کام نمائش کے لیے کرنا۔ مسائل : 1۔ منافقوں کو درد ناک عذاب کی خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن : عذاب کی خوشخبری کے مستحق : 1۔ منافقین۔ (النساء :138) 2۔ کفار۔ (التوبہ :3) 3۔ گانے بجانے والا اور متکبر۔ (لقمان :7) 4۔ متکبر گنہگار و بہتان باز۔ (الجاثیۃ:8) 5۔ انبیاء اور منصف لوگوں کے قاتل۔ (آل عمران :21) 6۔ زکوٰۃ نہ دینے والے۔ (التوبہ :34)