يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی اور اس کتاب پر جو اس نے اس سے پہلے نازل کی اور جو شخص اللہ کے ساتھ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور یوم آخرت (کے ساتھ) کفر کرے تو یقیناً وہ گمراہ ہوا، بہت دور گمراہ ہونا۔
فہم القرآن : ربط کلام : شہادتِ حق و عدل پر وہی قائم رہ سکتا ہے جو حقیقی معنوں میں ایمان کے تقاضے پورے کرتا ہو۔ ایمان کے سوا گمراہی کا راستہ ہے۔ قرآن مجید میں یہی آیت مبارکہ ہے جس میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے دوبارہ ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ اس کے بارے میں مفسرین نے تین آراء قائم کی ہیں۔ ایک طبقہ کا خیال ہے کہ یہاں ایمان داروں سے مراد صرف دعو ٰی ایمان رکھنے والے منافقین کو خطاب کیا گیا ہے۔ امام رازی (رح) اور ان کے ہمنوا اہل علم کا خیال ہے ﴿اٰمِنُوْا﴾ سے مراد یہودی ہیں کیونکہ یہودی علماء کا ایک وفد رسول مکرم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ ہم حضرت موسیٰ (علیہ السلام)، حضرت عزیر (علیہ السلام) اور تورات پر ایمان رکھتے ہوئے آپ اور قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں لیکن ان کے علاوہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء اور آسمانی کتابوں کو نہیں مانتے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مراد یہ ہے کہ اے لوگو! جو موسیٰ (علیہ السلام) اور عزیر (علیہ السلام) اور محمد کریم (ﷺ) پر ایمان لانے کا اظہار کرتے ہو تمہیں اللہ، اس کے رسول اور قرآن مجید کے ساتھ تمام انبیاء پر ایمان لانا چاہیے۔ تیسرے طبقہ کا خیال ہے کہ اس میں مسلمانوں کو ہی خطاب کیا گیا ہے جس کا معنی ہے اے ایمان کے دعویدار لوگو ! اسلام کو مکمل طور پر اپناتے ہوئے اس پر پوری استقامت کے ساتھ کاربند ہوجاؤ۔ یہاں اللہ، اس کے رسول اور قرآن مجید پر ایمان لانے کے ساتھ پہلے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ پھر ایمان کے پانچ اجزاء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا جو ان کا انکار کرتا ہے وہ صرف گمراہ ہی نہیں بلکہ دور کی گمراہی میں بھٹکتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا تقاضا ہے کہ اسے اس کی ذات اور صفات کے لحاظ سے تنہا اور یکتا تسلیم کرتے ہوئے اس کے احکام کی پورے اخلاص کے ساتھ اطاعت کرو۔ ملائکہ کو اس کی بیٹیاں یا خدائی اختیارات میں شریک سمجھنے کے بجائے اس کی مخلوق تصور کیا جائے۔ پہلی کتابوں اور انبیاء پر ایمان لانے کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے وقت میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے داعی اور اس کے فرستادہ تھے۔ آخرت پر ایمان کا مفہوم یہ ہے کہ اس کا قائم ہونا یقینی ہے اور ہر کسی نے دو بارہ زندہ ہو کر اپنے اچھے اور برے اعمال کا اچھا یا برا صلہ پانا ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جس سے آدمی کے نظریات اور کردار میں سنوار اور نکھار پیدا ہوتا ہے۔ آدمی اپنے آپ کو دنیا اور آخرت کے حوالہ سے ذمہ دار سمجھتا ہے۔ (عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) ذَاتَ یَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیدُ بَیَاض الثِّیَابِ شَدِیدُ سَوَاد الشَّعَرِ لاَ یُرَی عَلَیْہِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلاَ یَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّی جَلَسَ إِلَی النَّبِیِّ (ﷺ) فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلَی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلَی فَخِذَیْہِ قَالَ فَأَخْبِرْنِی عَنِ الإِیمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ باللَّہِ وَمَلائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بالْقَدَرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ )[ رواہ مسلم : باب مَعْرِفَۃِ الإِیمَانِ وَالإِسْلاَمِ ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (ﷺ) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی سفید کپڑوں میں ملبوس سیاہ بالوں والا جس پر سفر کے کوئی آثار نہیں تھے اور ہم سے کوئی اسے پہچانتا نہیں تھا وہ آکر نبی (ﷺ) کے سامنے دو زانوں ہو کر بیٹھ گیا اور اپنی ہتھیلیوں کو اپنی رانوں پر رکھتے ہوئے عرض کی مجھے ایمان کے متعلق بتائیے آپ نے فرمایا کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے۔“ مسائل : 1۔ مسلمانوں کو اللہ، اس کے رسول، قرآن مجید اور آسمانی کتابوں پر ایمان رکھنا چاہیے۔ 2۔ کامل ایمان ہی نجات کا ذریعہ ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ، ملائکہ، کتب آسمانی، رسولوں اور قیامت کا انکار کرنے والا پرلے درجے کا گمراہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : ایمان کے بنیادی ارکان : 1۔ غیب پر ایمان لانا۔ (البقرۃ:1) 2۔ قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ:4) 3۔ اللہ اور کتب سماوی پر ایمان لانا۔ (البقرۃ:136) 4۔ آخرت پر یقین رکھنا۔ (البقرۃ:4) 5۔ انبیاء پر ایمان لانا اور ان میں فرق نہ کرنا۔ (آل عمران :84) 6۔ رسولوں اور مومنوں کے ایمان کی تفصیل۔ (البقرۃ:285) 7۔ فرشتوں اور رسولوں سے دشمنی اللہ سے دشمنی کرنا ہے۔ (البقرۃ:98) 8۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے درمیان فرق نہ کرنا۔ (النساء :151)