وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ
بڑی ہلاکت ہے ہر بہت طعنہ دینے والے، بہت عیب لگانے والے کے لیے۔
فہم القرآن: (آیت 1 سے 9) ربط سورت : العصر میں انسان کے نقصان اٹھانے کی بات ہوئی یہاں بتلایا ہے کہ جو لوگ آخرت میں نقصان اٹھائیں گے وہ یہ ہوں گے جو آخرت کی فکر کرنے کی بجائے دنیا کا مال گن گن کر رکھتے تھے اور اس کا حق ادا نہیں کرتے تھے۔ ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کی عیب جوئی کرتا اور ان کی پیٹھ پیچھے ان کی غیبت کرتا ہے۔ ” ھُمَزَۃٍ“ اور ” لُمَزَۃِ“ الگ الگ معنٰی رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اس لیے کچھ مفسرین نے دونوں کا ایک ہی مفہوم بیان کیا ہے۔ بنیادی طور پر ” ھُمَزَۃٍ“ اور ” لُمَزَۃِ“ میں ایک لطیف فرق ہے۔ ”ھُمَزَۃٍ“ کا معنٰی عیب جوئی اور طعن زنی کرنا ہے۔” لُمَزَۃِ“ کا معنٰی چغل خوری کرنا ہے۔ جس میں یہ عیب پائے جائیں اس کے لیے ہلاکت ہوگی۔ دنیا میں ایسے شخص کے لیے ہلاکت یہ ہے کہ بالآخر وہ لوگوں کی نظروں میں حقیر اور ذلیل ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی چغل خوری کی وجہ سے لوگوں میں نفرتیں پیدا ہوتیں ہیں اور اس کی عیب جوئی اور طعنہ زنی کی وجہ سے لوگ اس کے ساتھ میل جول رکھنے سے اجتناب کرتے ہیں،” وَیْلٌ“ کا دوسرا معنٰی جہنم ہے، جو شخص یہ عادتیں رکھتا ہے وہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔ ایسے شخص کے پاس مال ہو تو وہ اسے خرچ کرنے کی بجائے گِن گِن کر رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا۔ ایسا شخص وہ پَر لے درجے کا بخیل ہوتا ہے، بخیل آدمی خیال کرتا ہے کہ خرچ کرنے سے اس کا مال ختم ہوجائے گا، جب مال ختم ہوجائے گا تو پھر میں کس طرح زندگی بسر کروں گا۔ گویا کہ اس کا اپنے رب کی رزّاقی پر یقین نہیں ہوتا حالانکہ مال کسی کا ساتھ نہیں دیتا، کتنے مالدار مریض ہیں کہ سب کچھ ہونے کے باوجود نہ میٹھی چیز کھا سکتے ہیں اور نہ نمکین کھا سکتے ہیں۔ کمزوری لاحق ہونے کے باوجود کوئی طاقتورچیز نہیں کھاسکتے۔ کیونکہ اس طرح ان کی بیماریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ ڈاکٹر بھی انہیں لا علاج قرار دے دیتے ہیں۔ جس دولت کو یہ سنبھال سنبھال کر رکھتارہا اور حق داروں کا حق ادا نہ کیا اس کے مال نے دنیا میں ہی اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے حالانکہ یہ سمجھتا تھا کہ مشکل کے وقت میرا مال مجھے کام دے گا۔ ایسے بخیل کو ضرور ” حُطَمَۃُ“ میں پھینکا جائے گا۔ اے نبی آپ نہیں جانتے کہ ” حُطَمَۃُ“ کیا ہے۔ وہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو لوگوں کے دلوں تک پہنچ جائے گی اور انہیں پوری طرح ڈھانپ لے گی، اس آگ کے شعلے اس قدر بلند ہوں گے کہ لمبے لمبے ستونوں کی شکل میں ہوں گے، جہنمیوں کو ان ستونوں کے ساتھ باندھ کر اوپر سے ڈھانپ دیا جائے گا، یہ اللہ تعالیٰ کی آگ ہوگی جسے مجرموں کے لیے بھڑکایا گیا ہے جو لوگوں کے دلوں پر چڑھ جائے گی۔ دلوں کا ذکراس لیے کیا گیا ہے کہ طعنہ زنی کرنا، لوگوں کی چغل خوری کرنا اور بخل کرنے والے کے دل میں یہ جرائم رچ بس جاتے ہیں۔ ﴿ اَلَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ﴾کے الفاظ استعمال فرما کر ایسے لوگوں کو انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر اپنے دلوں اور جسموں کو آگ سے بچانا چاہتے ہو تو دل کے بخل اور کمینی حرکات سے باز آجاؤ ! ورنہ تمہیں بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی آگ قرار دے کر مزید ناراضگی اور غضب کا اظہار کیا ہے جس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔“ (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ) مسائل: 1۔ عیب جوئی اور طعنہ دینے والے اور چغل خوری کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے۔ 2۔ مال کو گِن گِن کر رکھنے والے بخیل کے لیے ہلاکت ہے۔ 3۔ طعنہ دینے والے، چغل خور اور بخیل کو بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکا جائے گا۔ 4۔ جہنم کی آگ اللہ کے حکم سے بھڑکائی گئی ہے جو مجرموں کے دلوں پر چڑھ جائے گی۔ 5۔ جہنم میں مجرموں کو آگ کے ستونوں سے باندھ کر اوپر سے ڈھانپ دیا جائے گا۔