سورة التکاثر - آیت 1

أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تمھیں ایک دوسرے سے زیادہ حاصل کرنے کی حرص نے غافل کردیا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 8) ربط سورت : القارعہ میں بتلایا گیا ہے کہ مجرموں کو جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل کی جائے گا التّکاثر میں اس کی بنیادی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جہنمی آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ اس سورت کی ابتدا ” اَلْہٰی“ کے لفظ سے ہورہی ہے۔ عربی زبان میں ” اَلْہٰی یَلْہٰی“ کا معنٰی ہے کسی چیز کے ساتھ ایسا لگاؤ جس کی وجہ سے انسان اپنے اہم معاملات سے لاپرواہ اور غافل ہوجائے۔” التَّکَاثُرُ“ کے تین مفہوم لیے گئے ہیں۔ 1۔ زیادہ سے زیادہ مال واسباب جمع کرنا۔ 2۔ مال کی کثرت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا۔ 3۔ مال و اسباب کی کثرت پر فخر وغرور کرنا۔ یادرہے کہ دین اسلام دنیا کے اسباب اور اس کی ترقی میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتا، اسلام صرف یہ چاہتا ہے کہ لوگ دین اور دنیا کے درمیان توازن قائم کریں اگر دین اور دنیا میں مقابلہ ہو تو دین کو ترجیح دی جائے، لیکن ہر دور میں انسانوں کی اکثریت کا یہ حال رہا ہے کہ وہ مال واسباب کی محبت میں دین اور آخرت کوفراموش کردیتے ہیں۔ جس کا قرآن مجید نے اس طرح شکوہ کیا ہے۔ ” تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے یہ بات پہلے صحیفوں میں بھی کہی گئی تھی۔ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔“ (الاعلیٰ: 16تا19) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں، جو لوگ ایسا کریں وہ خسارے میں رہنے والے ہیں، جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ اس وقت کہہ کہ اے میرے رب تو نے کیوں نہ مجھے تھوڑی سی مہلت اور دی کہ میں صدقہ کرتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا۔“ (المنافقون : 9تا11) یہی ہلاکت اور پچھتاوا ہے جس کا اس سورت میں ذکر کیا گیا ہے کہ اے لوگو! تمہیں دنیا کے مال واسباب کے تکاثر نے ہلاک کردیا ہے، تم مرتے دم تک دنیا کے پیچھے پڑے رہتے ہو، یہاں تک کہ قبروں تک پہنچ جاتے ہو۔ انسان کی زندگی اور موت کے بعد چار مرحلے ایسے آتے ہیں جب انسان کو یقین ہوجاتا ہے کہ اس نے دنیا کی خاطر اپنے آپ کو ہلاک کرلیا ہے۔ پہلا مرحلہ انتہائی مجبوری اور بیماری کے وقت آتا ہے جب انسان لاعلاج بیماری یا کسی انتہائی مجبوری میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ دنیا کے مال واسباب اس کے کسی کام نہیں آسکے، دوسرا مرحلہ جو اس سے زیادہ یقینی ہوتا ہے وہ موت کا وقت ہے گنہگار کو پچھتاوا ہوتا ہے کہ کاش! میں دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دیتا، تیسرا مرحلہ قبر میں شروع ہوتا ہے جب انسان کو یقینی علم ہوجاتا ہے کہ مال کی حرص نے اسے ہلاکت میں ڈال دیا ہے، چوتھا اور آخری مرحلہ وہ ہوگا جب وہ اپنی آنکھوں کے سامنے جہنم دیکھے گا تو اس کے یقین میں ذرا برابر بھی شک نہیں رہے گا۔ اس لیے اس حالت کے بارے میں ” عین الیقین“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ مرحلہ اس وقت آئے گا جب اس سے ہر نعمت کے بارے میں جواب طلبی ہوگی اگر ناشکرا اور مجرم ثابت ہوا تو اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ یہی وہ ہلاکت ہے جس کے بارے میں ہر انسان کو متنبہ کیا گیا ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () قَالَ لَوْ أَنَّ لِإِبْنِ آدَمَ وَادِیًا مِّنْ ذَھَبٍ أَحَبَّ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ وَادِیَانِ وَلَنْ یَمْلَأَ فَاہُ إِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ) (رواہ البخاری : باب مایتقی من فتنۃ المال) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اگر آدم کے بیٹے کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں۔ اس کے منہ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ ” اللہ“ جس پر چاہتا ہے کرم فرماتا ہے۔“ (یعنی اسے قناعت دیتا ہے۔) (عَنْ مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ یُحَدِّثُ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَاب النَّبِیِّ () قَالَ کَان بالْکُوفَۃِ أَمِیرٌ قَالَ فَخَطَبَ یَوْماً فَقَالَ إِنَّ فِی إِعْطَاءِ ہَذَا الْمَالِ فِتْنَۃً وَفِی إِمْسَاکِہِ فِتْنَۃً وَبِذَلِکَ قَامَ بِہِ رَسُول اللَّہِ () فِی خُطْبَتِہِ حَتَّی فَرَغَ ثُمَّ نَزَلَ) (رواہ احمد : مسند عبداللہ بن الشخیر) ” مطرف بن عبداللہ بن شخیر سے روایت ہے وہ نبی اکرم (ﷺ) کے ایک صحابی کے بارے میں بیان کرتے ہیں جو کوفہ میں امیر تھے انہوں نے ایک دن اپنے خطبے میں کہا کہ مال کے عطا کیے جانے میں بھی آزمائش ہے اور اس کے روک لیے جانے میں بھی آزمائش ہے اسی بات کو بیان کرنے کے لیے نبی اکرم (ﷺ) منبر پر چڑھے اور اسے بیان کرنے کے بعد نیچے اتر آئے۔“ (عَنْ مُطَرَّفٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ () وَھُوَ یَقْرَأُ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ قَالَ یَقُوْلُ ابْنُ اٰدَمَ‘ مَالِیْ مَالِیْ قَالَ وَھَلْ لَکَ یَا ابْنَ اٰدَمَ إِلَّا مَا أَکَلْتَ فَأَفْنَیْتَ‘ أَوْلَبِسْتَ فَأَبْلَیْتَ‘ أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَیْتَ۔) (رواہ مسلم : باب الزھد والرقائق) ” مطرف اپنے والد (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (ﷺ) کے پاس آیا۔ اس وقت آپ سورۃ ” اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرْ“ تلاوت فرمارہے تھے۔ آپ نے فرمایا : ابن آدم کہتا ہے، میر امال، میرا مال آپ نے فرمایا : اے ابن آدم ! تیرا مال وہ ہے جسے تو نے کھا کر ہضم کرلیا، پہن کر بوسیدہ کردیا، جو تو نے صدقہ کیا اور اسے آخرت کے لیے آگے بھیجا۔“ (عَنْ کَعْبِ بْنِ عِیَاضٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ () یَقُولُ إِنَّ لِکُلِّ أُمَّۃٍ فِتْنَۃً وَفِتْنَۃُ أُمَّتِی الْمَالُ) (رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ أَنَّ فِتْنَۃَ ہَذِہِ الْأُ مَّۃِ فِی الْمَالِ، قال الالبانی ھٰذاحدیث صحیح) ” حضرت کعب بن عیاض (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہر امت کے لیے ایک اجتماعی آزمائش ہوتی ہے اور میری امت کی اجتماعی آزمائش مال ہے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے اور آپ کے دونوں ساتھیوں نے بکری کا گو شت کھایا، کھجوریں تناول کیں اور پانی پیا۔ جب اچھی طرح کھا پی کر سیر ہوگئے تو رسول معظم (ﷺ) نے ابوبکر و عمر (رض) سے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم سے قیامت کے دن ان نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔“ (رواہ مسلم : باب جَوَازِ اسْتِتْبَاعِہِ غَیْرَہُ إِلَی دَارِ مَنْ یَثِقُ بِرِضَاہُ بِذَلِکَ) مسائل: 1۔ لوگوں کو مال کی حرص نے تباہ کردیا ہے۔ 2۔ اکثر لوگ قبر تک پہنچنے سے پہلے مال کی حرص نہیں چھوڑتے۔ 3۔ عنقریب دنیادارلوگوں کو مال اور اپنے انجام کا پتہ چل جائے گا۔ 4۔ عنقریب انہیں یقین ہوجائے گا کہ انہوں نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لیا ہے۔ 5۔ دین کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینے والے ہر صورت جہنم کو دیکھ لیں گے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ ہر صورت اپنی نعمتوں کے بارے جواب طلبی کرے گا۔