سورة القارعة - آیت 1

لْقَارِعَةُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ کھٹکھٹانے والی۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 11) ربط سورت : العادیات اس فرمان پر ختم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بھی ہر کسی کے اعمال سے باخبر ہوگا۔ القارعہ میں قیامت کی حولناکیوں کا ذکر کرنے کے بعد واضح فرمایا ہے کہ نیک لوگ عیش کی زندگی میں ہوں گے اور برے لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دئیے جائیں گے۔ عربوں کے ہاں جب زور کے ساتھ دروازہ کھٹکھٹایا جائے تو وہ اس کے لیے ” قرع الباب“ کے الفاظ بولتے ہیں کہ اس نے زور کے ساتھ دروازہ کھٹکھٹایا۔ اسرافیل کے پہلی دفعہ صورپھونکنے کے بعد جو آواز پیدا ہوگی وہ اس قدر تیز اور دھماکہ خیز ہوگی کہ اس کی وجہ سے ہر چیز آپس میں ٹکر اکر ختم ہوجائے گی۔ سیارے آپس میں ٹکرا جائیں گے اور پہاڑ ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ پہاڑوں کے ٹکرانے سے یوں آوازیں نکلیں گی جس طرح توپ کا گولہ چلنے سے آوازنکلتی ہے، پہاڑ اس طرح ریت بن کر اڑ رہے ہوں گے جس طرح فضا میں دھنی ہوئی رنگ دار روئی اڑتی ہے، پہاڑوں سے اڑنے والے ذرات کو اس لیے دھنی ہوئی رنگ دار روئی سے تشبیہ دی ہے کہ شدید گرمی میں اڑنے والا گرد وغبار دور سے سرخ دکھائی دیتا ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے بتلا یا ہے : ﴿وَ مِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیْضٌ وَّ حَمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَ غَرَابِیْبُ سُوْدٌ﴾ (فاطر :27) ” اور پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں۔ جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔“ قیامت کی سختی اور گرمی کی وجہ سے لوگ اس طرح حواس باختہ اور پراگندہ ہوں گے جس طرح پتنگے روشنی پر بکھرے ہوتے ہیں، اس کے بعد لوگوں کو محشر کے میدان میں جمع کرکے ان کے اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوا وہ عیش کی زندگی میں ہوگا اور جس کے گناہوں کا پلڑا بھاری ہوا اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے۔ آپ کیا جانیں کہ ہاویہ کیا ہے ؟ عربی زبان میں ہاویہ آگ کی گہری خندق کو کہا جاتا ہے۔ جہنم میں آگ کی بڑی بڑی گہری خندقیں ہوں گی، ان میں ان لوگوں کو پھینکا جائے گا جن کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا۔ رب ذوالجلال نے قیامت کی ہولناکیوں اور جہنم کی آگ سے ڈرانے کے لیے یہ الفاظ دو بار استعمال کیے ہیں کہ اے رسول (ﷺ) ! آپ کیا جانیں کہ ”اَلْقَارِعَۃُ“ اور ” ہَاوِیَۃٌ“ کیا ہیں ؟ یہ اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا شخص اس بات کا احساس کرے کہ جب اللہ کا رسول قیامت کی کھٹکھٹاہٹ اور جہنم کی آگ کی شدت کو نہیں جانتے تو میں کون ہوتاہوں جو اس سے لاپرواہ ہوجاؤں۔ یہاں جہنم کی آگ کے لیے ” اُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جس طرح ماں اپنے بچے کو گود میں لیتی ہے کہ وہ گر نہ پائے۔ جہنم کی آگ بھی اس طرح مجرموں کو اپنی لپیٹ میں لے گی کہ مجرم کی جان چھوٹنے نہیں پائے گی۔ ﴿وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا۔ اِنَّہَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا﴾ (الفرقان : 65، 66) ” اور نیک لوگ دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے جہنم کا عذاب چمٹ جانے والاہے۔ وہ رہنے اور ٹھرنے کی بدترین جگہ ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) ( رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا کہ جہنم کی آگ کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا تو وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا یہاں تک کہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِّنَ نَّارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّتِسْعِیْنَ جُزْءً ا کُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں یقیناً اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا : تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ عرض کیا گیا کہ اللہ کے رسول! جلانے کے لیے یہی آگ کافی تھی۔ آپ نے فرمایا اس آگ سے وہ انہتر حصے زیادہ گرم ہے ان میں سے ہر حصے کی گرمی دنیا کی آگ کے برابر ہے۔“ مسائل: 1۔ قیامت کی کھٹکھٹاہٹ کا کوئی شخص اندازہ نہیں کرسکتا۔ 2۔ جس کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا اس کے لیے ہاویہ ہے۔ 3۔ قیامت کے دن لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہوں گے۔ 4۔ قیامت کے دن پہاڑ دھنی ہوئی رنگین اون کی طرح اڑیں گے۔ 5۔ قیامت کے دن جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوا وہ عیش کی زندگی بسر کرے گا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن اعمال کا وزن کیا جائے گا : 1۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اپنے اعمال کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔ (النحل :25) 2۔ قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور ہوگا۔ (الاعراف :8) 3۔ قیامت کے دن ہم عدل کا میزان قائم کریں گے۔ (الانبیاء :47) 5۔ جس کی نیکیوں کا وزن زیادہ ہوا وہ عیش و عشرت میں ہوگا۔ (المومنون :102) 5۔ جس کی نیکیوں کا وزن کم ہوا اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے۔ (القارعہ : 8، 9) 6۔ قیامت کے دن چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی سامنے آجائے گی اور چھوٹی سے چھوٹی برائی بھی مجرم کے سامنے ہوگی۔ (الزلزال : 7، 8)