أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ
تو کیا وہ نہیں جانتاجب قبروں میں جو کچھ ہے باہر نکال پھینکا جائے گا۔
فہم القرآن: (آیت 9 سے 11) ربط کلام : ناشکری اور بخل سے بچنے کے لیے انسان کو ہمیشہ اپنا انجام ذہن میں رکھنا چاہیے۔ بے شک انسان ہفت اقلیم کا بادشاہ اور پوری دنیا کے خزانوں کا مالک بن جائے، مگر موت کے وقت اس نے خالی ہاتھ جانا ہے، قبر میں کفن کے سوا کوئی چیز اس کے ساتھ نہیں جاتی۔ قیامت کے دن اسے اٹھایا جائے گا تو اس کے وجود پر کوئی لباس نہیں ہوگا، نیکی اور برائی کے سوا کوئی چیز اس کے ساتھ نہیں ہوگی۔ قیامت کے دن اسے قبر سے اٹھاکر محشر کے میدان میں کھڑا کیا جائے گا تو صرف اس کا اعمال نامہ اس کے سامنے پیش نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے ہر عمل کے ساتھ اس کی نیت اور خیالات بھی لف (Attache) ہوں گے۔ انسان اپنے رب سے کوئی چیز نہیں چھپا سکے گا۔ گو اللہ تعالیٰ ہر حال اور ہر وقت اپنے بندوں سے باخبر رہتا ہے لیکن قیامت کے دن کا ذکر فرما کرہر انسان کو انتباہ کیا ہے کہ اے انسان! دنیا میں تو لوگوں کی نگاہوں سے بچ سکتا ہے لیکن اپنے رب کی نگاہ سے نہیں بچ سکتا، اس لیے تجھے اس دن کا فکر کرنا چاہیے جس دن ہر چیز تیرے سامنے رکھ دی جائے گی۔ قرآن مجید نے اس مقام پر قیامت کے دن لوگوں کے اٹھنے کی جگہ کو قبور کہا ہے۔ قبور کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ہر آسمانی دین میں مردوں کو قبر میں دفنانے کا حکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی، عیسائی اور مسلمان اپنے فوت شدگان کو قبروں میں دفناتے ہیں۔ یہاں تک جو لوگ دفنانے کی بجائے مردوں کو جلا دیتے ہیں وہ بھی مردوں کی راکھ کو مٹی میں ہی دفن کرتے ہیں۔ مسائل: 1۔ قیامت کے دن زمین میں جو کچھ ہوگا وہ اسے اللہ کے حکم سے باہر پھینک دے گی۔ 2۔ قیامت کے دن انسان کے ہر خیال کو ظاہر کردیا جائے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو ابد سے جاننے والا ہے۔