سورة البينة - آیت 1

لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ لوگ جنھوں نے اہل کتاب اور مشرکین میں سے کفر کیا، باز آنے والے نہ تھے، یہاں تک کہ ان کے پاس کھلی دلیل آئے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 3) ربط سورت : لیلۃ القدر میں نازل ہونے والا قرآن مجید کسی ایک فرقہ اور قوم کے لیے نازل نہیں ہوا، یہ بلا تخصیص ہر دور کے لوگوں کے لیے نازل ہوا جس میں اہل کتاب اور مشرکین بھی شامل ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں اہل کتاب اور مشرکین کو الگ، الگ مخاطب کیا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہل کتاب مشرک نہیں تھے۔ یہ قرآن مجید کا مخصوص انداز ہے کہ وہ اہل کتاب کو بنی اسرائیل اور ان کے معروف نام اہل کتاب سے مخاطب کرتا ہے، جہاں تک ان کے شرک کا تعلق ہے یہ اسی طرح ہی شرک میں ملوّث تھے جس طرح عرب کے مشرکین شرک میں مبتلا تھے۔ فرق صرف اتنا تھا اور ہے کہ عرب کے مشرکین بتوں کے واسطے سے عبادت اور دعا کرتے تھے۔ یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے اور دعا میں ان کا واسطہ اختیار کرتے تھے اور کرتے ہیں نصاریٰ یہودیوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر حضرت عیسیٰ اور مریم (علیہ السلام) کو اللہ کا جز قرار دیتے ہیں اور یہ عیسیٰ اور حضرت مریم ( علیہ السلام) کے نام پر شرک کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے کفر کیا وہ اس وقت تک اپنے شرک سے باز نہیں آئیں گے جب تک کھلا معجزہ نہ دیکھ لیں، کھلے معجزے سے مراد وہ معجزات اور مطالبات ہیں جن کا یہ لوگ تقاضا کرتے تھے۔ حالانکہ ان کے مطالبات پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ذریعے پورے ہوچکے تھے۔ جن کی قرآن مجید میں تفصیل موجود ہے اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے۔ ” اور بے علم لوگوں نے مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے مطالبہ کیا تھا۔ ان کے اور ان کے دل یکساں ہوگئے ہیں بلا شبہ ہم نے یقین کرنے والوں کے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں۔ ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور آپ سے جہنمیوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔“ (البقرۃ: 118، 119) ” ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کے نام کھلے خط بھیجے جائیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا اصل بات یہ ہے کہ یہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔ قرآن تو ایک نصیحت ہے جس کا جی چاہے اس سے سبق حاصل کرے۔“ (المدثر : 52تا55) ان کے پاس حضرت محمد (ﷺ) تشریف لاچکے ہیں جن کی ذات، اخلاق اور کردار بہت بڑا اور کھلا معجزہ ہے۔ آپ ان کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں جس کی ایک ایک آیت بول کربتاتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا پاکیزہ کلام ہے اور اس میں اس کے محکم فرمان موجود ہیں۔ ” صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً“ کی وضاحت فرما کر یہ اشارہ کیا ہے کہ جس طرح تورات اور انجیل میں تحریف کرکے یہود ونصاریٰ نے اللہ کی ذات اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کے کردار کے متعلق اخلاق باختہ باتیں منسوب کی ہیں۔ قرآن مجید اس قسم کی بے ہودگی اور بے مقصد باتوں سے پاک ہے، اس میں یہ بھی اشارہ ہے جس طرح موجودہ تورات اور انجیل کی عبارات میں الجھاؤ اور تضاد پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید کا کوئی ایسا مسئلہ اور ضابطہ نہیں جس میں الجھاؤ اور ٹکراؤ پایا جاتا ہو، اس کے احکام واضح اور ٹھوس ہیں۔ اس میں یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ پہلی کتابیں مشکوک ہوچکی ہیں لیکن قرآن مجید شکوک وشبہات سے پاک ہے۔ اہل علم نے ” صُحُفًا“ کا معنٰی اوراق اور مضامین لیے ہیں جو پاکیزہ ہونے کے ساتھ واضح اور ٹھوس ہیں، پاکیزہ کا یہ بھی مطلب ہے کہ قرآن مجید کے احکام فرد اور معاشرے میں پاکیزگی پیدا کرتے ہیں۔” قَیِّمَۃٌ“ سے مراد ہے کہ قرآن مجید کے ا حکام اور الفاظ میں کوئی تبدیلی نہیں آسکے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ ( الحجر :9) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم (ﷺ) نے ابی بن کعب (رض) سے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں تجھ سے قرآن مجیدکی تلاوت سنوں ابی (رض) نے عرض کی کہ ” اللہ“ نے آپ کو میرا نام لے کر فرمایا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ہاں میں۔ حضرت ابی بن کعب (رض) نے حیران ہو کر پوچھا کیا میرا رب العالمین کے ہاں ذکر ہوا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا بالکل ذکر ہوا ہے۔ اس خوشی سے حضرت ابی بن کعب (رض) کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے دوسری روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ سے ﴿لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ کی تلاوت سنوں۔ ابی بن کعب (رض) نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ہاں تیرا نام لیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابی بن کعب (رض) خوشی سے رو پڑے۔“ (رواہ البخاری : باب مناقب ابی بن کعب) مسائل: 1۔ اہل کتاب اور مشرکین کی غالب اکثریت اپنے کفر سے باز آنے والی نہیں 2۔ رسول کریم (ﷺ) کی ذات لوگوں کے لیے کھلے معجزے کی حیثیت رکھتی ہے۔ 3۔ قرآن مجید میں کسی قسم کا الجھاؤ اور ٹکراؤ نہیں پایا جاتا۔ 4۔ قرآن مجید ہر قسم کی غلطی سے مبرّا اور پاک ہے۔