إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
بلاشبہ ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا۔
فہم القرآن: (آیت 1 سے 3) ربط سورت : سورۃ اقراء میں جس چیز کو پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے وہ قرآن مجید کی وحی ہے اور قرآن مجید کا نزول لیلۃ القدر میں ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو ” لَیْلَۃُ الْقَدْرِ“ میں نازل کیا ہے یہاں اس رات کو لیلۃ القدر کہا گیا ہے اور سورۃ الدُّخان کی ابتدائی آیات میں اسے مبارک رات قراردیا گیا ہے۔ القدر کے دو معانی ہیں۔ 1۔ عزت والی رات 2۔ القدر سے مراد تقدیر بھی ہے کیونکہ اس رات میں لوگوں کی سال بھر کی تقدیر کا فیصلہ کیا جاتا ہے اس لیے اس کا نام ” لَیْلَۃُ الْقَدْرِ“ ہے۔ امام قرطبی (رح) نے اس سے مراد لی ہے کہ یہ عزّت والی کتاب عزّتِ مآب رسول پر، عزّت والی رات میں نازل کی گئی اس لیے آپ (ﷺ) کی امت بھی دوسری امتوں میں عزّت والی ہے۔ اس رات کی عزت وعظمت کو اجاگر کرنے کے لیے ارشاد ہوا کہ اے رسول (ﷺ) ! اس سے پہلے آپ نہیں جانتے تھے کہ یہ رات کیوں اور کس قدر عزت والی ہے ؟ یہ اس لیے عزت والی ہے کہ اس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے اس لیے یہ رات ایک ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ مفسرین ان الفاظ کے بھی دو مفہوم لیتے ہیں۔ 1۔ عربوں کے ہاں ہزار مہینے سے مراد لامحدود مدت سمجھی جاتی تھی، اس لیے یہ رات لامحدود مدّت کی خیر سے زیادہ اپنے دامن میں خیر لیے ہوئے ہے۔ یہ رات ایک ہزار مہینے سے بہتر ہے ایک ہزار مہینہ سوا تراسی سال کے برابر بنتا ہے۔ اس لیے یہ رات اپنے اندر سوا تراسی سال کی خیر وبرکت سے بھی زیادہ خیر لیے ہوئے ہے کیونکہ اس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے، قرآن مجید کے بارے میں البقرۃ آیت 185میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ رمضان المبارک میں نازل ہوا۔ یہاں یہ واضح فرمایا ہے کہ اسے لیلۃ القدر کی رات میں نازل کیا گیا ہے۔ لیلۃ القدر کے بارے میں نبی معظم (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کو تقویت ملتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ نبی (ﷺ) پر پہلی وحی رمضان کے آخری عشرے کی طاق رات میں نازل ہوئی۔ جہاں تک قرآن مجید کے لیلۃ القدر میں نازل ہونے کا تعلق ہے اس کے بارے میں مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے قرآن مجید لیلۃ القدر کی رات میں آسمان دنیا پر نازل کیا گیا اور پھر جبریل امین کے ذریعے آسمان دنیا سے نبی (ﷺ) پر تیئس سال کے عرصے میں نازل ہوتا رہا۔ اہل علم نے اس رات کی خیر سے مراد یہ مفہوم بھی لیا ہے کہ اس رات میں کی گئی عبادت ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہوتی ہے، کچھ حضرات نے یہ کہا ہے کہ اس رات میں جو خیر کثیر نازل کی جاتی ہے وہ ہزار مہینے میں اترنے والی خیر سے زیادہ ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ لیلۃ القدر کے بارے میں بہت سی روایات ہیں سب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے اس لیے کسی ایک رات کو متعین کرنے کی بجائے پانچ طاق راتوں میں جاگنا اور عبادت کرنی چاہیے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدنِ الْخُدْرِیِّ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) اعْتَکَفَ الْعَشْرَ الْاَوَّلَ مِنْ رمَضَانَ ثُمَّ اعْتَکَفَ الْعَشْرَ الْاَوْسَطَ فِیْ قُبَّۃٍ تُرْکِیَّۃٍ ثُمَّ اطَلَعَ رَاْسَہٗ فَقَالَ اِنِّیْ اَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْاَوَّلَ اَلْتَمِسُ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃَ ثُمَّ اَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْاَوْسَطَ ثُمَّ اُتِیْتُ فَقِیْلَ لِیْ اِنَّھَا فِی الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ فَمَنْ کَانَ اعْتَکَفَ مَعِیَ فَلْیَعْتَکِفِ الْعَشْرَ الْاَوَاخِرَ فَقَدْ اُرِیْتُ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃَ ثُمَّ اُنْسِیْتُھَا وَقَدْ رَاَیْتُنِیْ اَسْجُدُ فِیْ مَآءٍ وَّطِیْنٍ مِّنْ صَبِیْحَتِھَا فَالْتَمِسُوْھَا فِی الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ وَالْتَمِسُوْھَا فِیْ کُلِّ وِتْرٍ قَالَ فَمَطَرَتِ السَّمَاءُ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ وَکَانَ الْمَسْجِدُ عَلٰی عَرِیْشٍ فَوَکَفَ الْمَسْجِدُ فَبَصُرَتْ عَیْنَایَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) وَعَلٰی جَبْھَتِہٖ اَثَرُ الْمَآءِ وَالطِّیْنِ مِنْ صَبِیْحَۃِ اِحْدٰی وَعِشْرِیْنَ) (رواہ مسلم : باب فَضْلِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَالْحَثِّ عَلَی طَلَبِہَا) ” حضرت ابو سعیدخدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (ﷺ) رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف بیٹھے بعد ازاں درمیانے عشرہ میں ترکی خیمہ میں اعتکاف بیٹھے، آپ (ﷺ) نے اپنا سر مبارک خیمے سے باہر نکالا اور فرمایا میں پہلے عشرہ میں اعتکاف بیٹھا اور شب قدر کا متلاشی رہا، پھر میں نے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا میرے پاس فرشتہ آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ شب قدر آخری دس راتوں میں ہے جو شخص میرے ساتھ اعتکاف بیٹھنا چاہتا ہے وہ آخری دس دن اعتکاف بیٹھے۔ مجھے یہ رات دکھائی گئی لیکن مجھے بھلادی گئی میں نے دیکھا کہ اس رات کی صبح کو میں پانی اور مٹی میں سجدہ کررہا ہوں، تم شب قدر کو آخری دس راتوں میں سے طاق رات میں تلاش کرو۔ راوی کہتا ہے جس رات بارش ہوئی اور مسجد کی چھت ٹپکی جو چھپر کی تھی میری آنکھوں نے دیکھا کہ رسول اللہ (ﷺ) کی پیشانی پر اکیسویں رات کی صبح کو کیچڑ کا اثر تھا۔“