فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ
پس لیکن یتیم، پس (اس پر) سختی نہ کر۔
فہم القرآن: (آیت 9 سے 11) ربط کلام : نبی (ﷺ) کو یتیموں اور غریبوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی خصوصی تلقین۔ یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہر صاحب حیثیت کا فرض ہے لیکن یہ فرض اس شخص کے لیے زیادہ اہم ہوجاتا ہے جس نے یتیمی میں آنکھ کھولی اور غریبی میں پرورش پائی ہو۔ اللہ تعالیٰ اسے مقام عطا فرمائے اور وسائل سے ہمکنار کرے تو اس کافرض ہے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو امت کا سربراہ بنایا اور فتح مکہ کے بعد وسائل کے دروازے کھول دئیے۔ اس لیے آپ کو حکم دیا گیا کہ یتیم کو نہیں جھڑکنا اور سائل سے روگردانی اختیار نہیں کرنی اور اپنے رب کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرتے رہنا۔ (عَنْ سَہْلٍ (رض) قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِی الْجَنَّۃِ ہَکَذَا وَأَشَار بالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی، وَفَرَّجَ بَیْنَہُمَا شَیْئًا) (رواہ البخاری : باب فضل من یعول یتیما) ” حضرت سہل (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ (ﷺ) نے سبابہ اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور ان کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) السَّاعِیْ عَلَی الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوِ الْقَائِمِ اللَّیْلَ الصَّائِمِ النَّھَارَ) (رواہ البخاری : باب فضل النفقۃ علی الأھل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا بیوہ اور مسکین پر نگران اللہ کی راہ میں مجاہد کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“ حقیقی سائل کو جھڑکنے کی اجازت نہیں : (عنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَسَمَ رَسُول اللّٰہِ َ قَسْمًا فَقُلْتُ وَاللّٰہِ یَا رَسُول اللّٰہِ لَغَیْرُ ہَؤُلَاءِ کَانَ أَحَقَّ بِہِ مِنْہُمْ قَالَ إِنَّہُمْ خَیَّرُونِی أَنْ یَسْأَلُونِی بالْفُحْشِ أَوْ یُبَخِّلُونِی فَلَسْتُ بِبَاخِل) (صحیح مسلم، بَابُ إِعْطَاءِ مَنْ سَأَلَ بِفُحْشٍ وَغِلْظَۃٍ) ” حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (ﷺ) نے صدقہ کا کچھ مال تقسیم فرمایا۔ میں نے عرض کی یارسول اللہ! اللہ کی قسم! اس کے مستحق تو دوسرے لوگ ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا ان لوگوں نے مجھے مجبور کردیا ہے یا تو وہ مجھ سے بے حیائی اور ڈھٹائی سے مانگیں یا وہ مجھے بخیل کہیں اور میں بخل کرنے والا نہیں ہوں۔“ (عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ (ﷺ) فِی ثَوْبٍ دُونٍ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ (ﷺ) أَلَکَ مَالٌ قَالَ نَعَمْ مِنْ کُلِّ الْمَالِ قَالَ مِنْ أَیِّ الْمَالِ قَالَ قَدْ آتَانِی اللّٰہُ مِنْ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ وَالْخَیْلِ وَالرَّقِیقِ قَالَ فَإِذَا آتَاک اللّٰہُ مَالًا فَلْیُرَ عَلَیْکَ أَثَرُ نِعْمَۃِ اللّٰہِ وَکَرَامَتِہٖ) (رواہ النسائی : کتاب الزینۃ، باب الجلاجل ) ” حضرت ابو الاحوص اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی اکرم (ﷺ) کے پاس بالکل معمولی کپڑوں میں آئے تو اللہ کے نبی (ﷺ) نے فرمایا : کیا تمھارے پاس مال ہے انھوں نے کہا ہاں ہر طرح کا مال ہے نبی معظم (ﷺ) نے پوچھا کون کون سا ؟ میرے والد نے کہا اللہ نے اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام اور لونڈیاں بھی دی ہیں۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے تو اس کی نعمت اور فضل کے آثار بھی تم پر دکھائی دینے چاہئیں۔“ مسائل: 1۔ یتیم پر سختی نہیں کرنی چاہیے۔ 2۔ حقیقی سائل کو جھڑکنے کی اجازت نہیں۔ 3۔ اپنے رب کی نعمتوں کا شکریہ اور اظہار کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : یتیموں اور مسکینوں کے حقوق : 1۔ یتیم تمہارے بھائی ہیں۔ (البقرۃ:220) 2۔ یتیموں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم۔ (البقرۃ:83) 3۔ یتیموں کا مال واپس کیا جائے۔ (النساء :2) 4۔ یتیموں کا مال بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر واپس کرو۔ (النساء :6) 5۔ یتیموں کو مال دو تو اس پر گواہ کرلو۔ (النساء :6) 6۔ یتیموں کا مال کھانا بڑا گناہ ہے۔ (النساء :2) 7۔ یتیم کو جھڑکنے کی ممانعت۔ (الضحیٰ:9) 8۔ والدین، یتیموں، اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ (النساء :36) 9۔ یتیم کا مال کھانے والا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہا ہے۔ (النساء :10)