يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ ۖ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا
وہ انھیں وعدے دیتا ہے اور انھیں آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انھیں دھوکے کے سوا کچھ وعدہ نہیں دیتا۔
فہم القرآن : (آیت 120 سے 121) ربط کلام : شیطان گمراہی پر آدمی کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ عمر بھر اس کے پھندے میں پھنسا رہے اور گناہوں میں آگے ہی بڑھتاچلا جائے۔ اسی وجہ سے شیطان انسان کو ہر قسم کی امیدیں دلاتا ہے۔ علامہ عبدالرحمن ابن جوزی (رح) نے شیطان کے پھندوں اور دلفریب وعدوں پر ” تلبیس ابلیس“ کے نام پر ایک مفصل کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے سینکڑوں ایسے واقعات درج کیے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان آدمی کی طبیعت اور اس کا رجحان دیکھ کر اسے گمراہ کرتا ہے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ وہ کسی سخی انسان کو کنجوسی کی طرف رغبت دے بلکہ وہ سخی کو فضول خرچی و اسراف پر آمادہ کرتا ہے۔ بخیل کو فقر کا خوف دلا کر مزید کنجوس بناتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسا آدمی اپنے آپ پر خرچ کرنے سے بھی گریز کرتا ہے۔ اسی طرح شیطان توحید کے نام پر یہ کہہ کر گناہوں پر دلیری دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کے علاوہ سب کچھ معاف کر دے گا۔ وہ محبت کے نام پر بے حیائی کا سبق دیتا اور بزرگوں کی عقیدت کے ذریعے شرک کے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہ سراسر دین کے نام پر جھوٹی امیدیں دلانا اور دھوکہ دینا ہے۔ دین کے نام پر دھوکے کو قرآن مجید نے سورۃ آل عمران میں یوں بیان فرمایا ہے۔ ﴿وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّآ أَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ۔۔﴾ [ النساء :41] ” اور انہوں نے کہا ہمیں چند گنتی کے دنوں کے علاوہ ہرگز آگ نہ چھوئے گی۔“ یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم صرف چند دنوں کے لیے جہنم میں جائیں گے۔ اس کے بعد ہمارے لیے دائمی عیش و عشرت ہوگی۔ اسی فریب کے ذریعے عیسائیوں کو شیطان نے عقیدہ سمجھایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سولی پر لٹک کر تمہارے گناہوں کا کفارہ بن چکے ہیں۔ شیطان کی پیروی اور یہود و نصاریٰ کی دیکھا دیکھی مسلمانوں کی غالب اکثریت ابلیس کی فریب کاریوں میں آ کریہ کہتے سنائی دیتی ہے کہ جنت میں جانے کے لیے بزرگوں کی عقیدت اور کسی پیر کا مرید ہونا کافی ہے۔ ایسے لوگ شیطان کی پیروی میں اس عقیدے پر بڑاناز اور فخر کرتے ہیں‘ ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ جس طرح زندگی بھر شیطان کے فریب میں مبتلا رہے اور جھوٹی امیدوں میں گھرے رہے اسی طرح جہنم میں ہمیشہ کے لیے گھرے رہیں گے اور ان کے لیے اس سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ شیطان کا دھوکہ اور فریب : ﴿کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ إِنِّیْ بَرِیْءٌ مِّنْکَ إِنِّیْ أَخَاف اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ فَکَانَ عَاقِبَتَہُمَآ أَنَّہُمَا فِی النَّارِ خَالِدَیْنِ فِیْہَا وَذٰلِکَ جَزٰؤٓا الظّٰلِمِیْنَ﴾ [ الحشر : 16، 17] ” شیطان کی طرح جب اس نے انسان کو کہا کہ کفر کر پھر اس نے کفر کرلیا تو کہنے لگا میں تجھ سے بری ہوں یقیناً میں تو رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ ان دونوں کا انجام یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور یہی ظالموں کی سزا ہے۔“ مسائل : 1۔ شیطان کے وعدے مکرو فریب کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ 2۔ شیطان اور اس کے ساتھیوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اس سے کبھی نجات نہیں پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : جہنم سے چھٹکارا ممکن نہیں : 1۔ جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ (البقرۃ:167) 2۔ جہنم سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔ (الزخرف :77) 3۔ جہنم میں موت و حیات نہیں ہوگی۔ (طٰہٰ:74) 4۔ دنیا میں لوٹ آنے کی خواہش پوری نہیں ہوگی۔ (الانعام :27) 5۔ جہنم کی سزا میں وقفہ نہیں ہوگا۔ (فاطر :36) 6۔ جہنم کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔ (الفرقان :65) 7۔ جہنم بدترین ٹھکانا ہے۔ (آل عمران :197) 8۔ جہنم کے عذاب سے پناہ مانگنی چاہیے۔ (الفرقان :65) 9۔ جہنمیوں کو آگ کے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا۔ (الہمزہ :90)