وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا
قسم ہے سورج کی! اور اس کی دھوپ کی!
فہم القرآن: (آیت 1 سے 10) ربط سورت : سورۃ البلد کے آخر میں یہ بتلایا کہ کفار کو دھکتی ہوئی آگ میں پھینکا جائے گا۔ الشمس میں گیارہ قسمیں اٹھانے کے بعد یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کے دل میں نیکی اور بدی کا شعور پیدا کیا ہے۔ اب اس کی مرضی ہے کہ یہ اپنے لیے کون سا کردار اور انجام پسند کرتا ہے۔ سورۃ الشمس کا آغاز بھی بڑی بڑی چیزوں کی قسموں سے کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آغاز میں گیارہ قسمیں اٹھائی ہیں۔ قرآن مجید میں یہی وہ مقام اور سورت ہے کہ جہاں ایک ہی مقام پر گیارہ قسمیں اٹھائیں گئی ہیں۔ جس بات کے لیے قسمیں اٹھائی گئی ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ٹھیک ٹھاک بنا کر اس کے دل میں نیکی اور بدی کا القا کردیا ہے۔ نفس میں برائی اور نیکی کا القا فرما کر یہ احساس بخشا کہ اے انسان! تجھے نیک کام کرنے اور برائی سے بچنے کی کوشش کرنا ہے اور یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ اگر نیکی کرے گا تو اس کا اجر پائے گا اور اگر برائی کرے گا تو اس کی سزا پائے گا۔ یقیناً وہ شخص کامیاب ہوگا جس نے اپنے آپ کو فسق وفجور اور کفر و شرک سے پاک کرلیا اور وہ شخص ہر صورت ناکام ہوگا جس نے اپنے نفس کو خاک آلود کرلیا، خاک آلود کرنا ہر زبان میں ایک محاورہ ہے جس کا معنٰی گھٹیا کاموں میں ملوث ہونا اور اپنے آپ کو اخلاقی اعتبار سے گرانا ہے۔ جو شخص گھٹیا کاموں میں ملوث ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو ذلیل کرلیتا ہے اور جو شخص اپنے آپ کو برے کاموں سے بچاتا ہے وہ معزز بن جاتا ہے اور وہی کامیاب ہوگا۔ آیت پانچ، چھ اور سات میں ” مَا“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے کچھ اہل علم کو یہ مغالطہ پیش آیا کہ ” مَا“ کا لفظ ذوالعقول کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ ان آیات میں ” مَا“ مصدریہ بھی ہوسکتا ہے اور ” مَا“ بمعنی ” مَنْ“ بھی ہوسکتا ہے۔ امام حسن بصری اور مجاہد (رح) کا فرمان ہے کہ ” مَا“ بمعنی ” مَنْ“ ہے۔ رہا یہ شبہ کہ ” مَا“ کا استعمال بے جان مخلوق اور غیر عاقل اشیاء کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں ” مَا“ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کیسے مراد لی جا سکتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں ” مَا“ بکثرت ” مَنْ“ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً ﴿وَلاَ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ﴾ (الکافرون :3) ” اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتاہوں۔“ ﴿فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ﴾ (النساء :3) ” پس عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرلو۔“ ﴿وَ لَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ﴾ (النساء :22) ” اور جن عورتوں سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرو۔“ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی قدرت کی گیارہ نشانیاں بیان کرتے ہوئے ان کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں برائی اور نیکی کا القاء فرمایا ہے۔ دل میں برائی اور نیکی کے القاء کا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دل میں نیکی اور برائی کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا کی ہے بشرطیکہ اس کا دل روحانی طور پر زندہ ہو اگر دل گناہوں کی وجہ سے مردہ ہوجائے تو اس میں نیکی اور برائی کے درمیان فرق کرنے والی قوت بھی دب جاتی ہے جس بنا پر مجرمانہ دل رکھنے والا انسان گناہ اور برائی میں تمیز کرنے سے محروم ہوجاتا ہے تاہم پھر بھی کبھی نہ کبھی اس کا دل اس برائی سے نفرت کا اظہار ضرور کرتا ہے۔ (اَلْإِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتَ أَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ) (رواہ مسلم : باب تفسیر البر والإثم) ” گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کو اس کا علم ہونا پر تجھے ناگوار گزرے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے گیارہ قسمیں اٹھا کر ارشاد فرمایا کہ اس نے انسان کے دل میں برائی اور نیکی کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت القاء فرمائی ہے۔ 2۔ جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگا اور جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے آلودہ کرلیا وہ تباہ ہوجائے گا۔