ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ
پھر ( یہ کہ) ہو وہ ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو رحم کرنے کی وصیت کی۔
فہم القرآن: (آیت 17 سے 20) ربط کلام : مشکل ترین کاموں میں مزید مشکل ترین کام۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسکین کو کھانا کھلانا، رشتہ دار یتیم کی پرورش کرنا، اخلاقی لحاظ اور مالی اعتبار سے مشکل ترین کام ہیں لیکن ان کاموں سے مشکل ترین کام یہ ہے کہ انسان اپنے باطل نظریات بالخصوص کفر و شرک کو چھوڑ کر توحید و رسالت کا عقیدہ اپنائے اور اس راستے میں جو بھی مشکلات آئیں ان کا پورے حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے حوصلوں کو بھی بلند رکھنے کی کوشش کرے اور ایک دوسرے کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا رویہ اختیار کرے۔ دین اختیار کرنے پر مشکلات کا آنا یقینی امر ہے مشکلات پر قابو پانے کے لیے یہی دو طریقے ہیں جن پر چل کر مسلمان اپنے ایمان کو سلامت رکھ سکتا ہے۔ ایماندار شخص کو خود صبر کرنے اور دوسروں کو صبر کرنے کی تلقین کرنے کے ساتھ ایک دوسرے سے نرمی اور مہربانی بھی کرنی چاہیے۔ اس کے بغیر حق کا قافلہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ مشکلات باطل پرستوں کی طرف سے ہوں یا بیماری اور غربت کی صورت میں ہوں ایماندار کا شیوہ ہے کہ وہ خود بھی صبر کرے اور ایسے حالات میں اپنے ساتھیوں کو بھی صبر کرنے کی تلقین کرتا رہے۔ (عَنْ عَبْدِاللَّہِ بْنِ عَمْرٍو یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (ﷺ) الرَّاحِمُونَ یَرْحَمُہُمُ الرَّحْمَنُ ارْحَمُوا أَہْلَ الأَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ) (رواہ ابو داؤد : باب فِی الرَّحْمَۃِ قال الالبانی ھٰذا حدیث صحیح) ” حضرت عبداللہ بن عمرو نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ رحم کرنے و الوں پر رحم کرتا ہے تم زمین والوں پر رحم کرو ! آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔ (عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لاَ یَرْحَمُ اللَّہُ مَنْ لاَ یَرْحَمُ النَّاسَ) (باب قَوْلِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی ﴿قُلِ ادْعُوا اللَّہَ﴾) ” حضرت جریر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ اس بندے پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لَیْسَ الْوَاصِلُ بالْمُکَافِئِ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِیْ إِذَا انْقَطَعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَہَا) (رواہ الترمذی : باب مَا جَآءَ فِیْ صِلَۃِ الرَّحِم) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا برابری کرنے والا صلہ رحم نہیں ہے، صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے جس سے تعلق توڑا جائے تو وہ اسے جوڑنے کی کوشش کرے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِّنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَایُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا : جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ اجر والا ہے جو نہ لوگوں میں گھل مل کررہتا ہے اور نہ ان کی دی ہوئی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔“ مسائل: 1۔ باطل نظریات کو چھوڑنا اور حق بات کو قبول کرنا مشکل ترین کاموں میں سے اہم ترین کام ہے۔ 2۔ ایمانداروں کو ایک دوسرے کو صبر اور مہر بانی کرنے کی تلقین کرنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن : نرمی اور مہربانی کرنے کی فضیلت : 1۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف :35) 2۔ نبی (ﷺ) کو صبر کرنے کا حکم دیا گیا۔ (المعارج :) 3۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ :153) 4۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات :5) 5۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون :111) 6۔ صابر مسلمان کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد :24) 7۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان :75) 8۔ صابر بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر :10) 9۔ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کا حکم ہے۔ (آل عمران :200) 10۔ بنی اسرائیل سے والدین کے ساتھ احسان کرنے کا عہدلیا گیا۔ (البقرۃ:83) (مریم :32) 11۔ لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم۔ ( البقرۃ:83) 12۔ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ (لقمان :15)