سورة البلد - آیت 8

أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا ہم نے اس کے لیے دو آنکھیں نہیں بنائیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 8 سے 16) ربط کلام : جس شخص کا یہ خیال ہے کہ ” اللہ تعالیٰ“ اسے نہیں دیکھتا اسے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ” اللہ تعالیٰ“ اسے اس وقت سے دیکھ رہا ہے کہ جب اس کے رحم مادر میں نقش ونگار بنائے جا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ کیا انسان اس پر پر غور نہیں کرتاکہ ہم نے اسے دو آنکھیں، ایک زبان اور دوہونٹ عطا کیے ہیں اور ہم نے اسے دوراستے دکھائے ہیں مگر اس نے مشکل گھاٹی سے گزرنے کی کوشش نہیں کی۔ آپ کیا سمجھیں کہ مشکل گھاٹی کیا ہے؟ مشکل گھاٹی یہ ہے کہ کسی کی گردن کو غلامی سے چھڑایا جائے، کسی قرابت دار فاقہ مست اور خاک نشین، یتیم یا مسکین کو بھوک کے دن کھانا کھلانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں مشکل کاموں کا ذکر کرنے سے پہلے ارشاد فرمایا ہے کہ کیا انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ ہم نے اس کو دو آنکھیں، ایک زبان اور دو ہونٹ عطا فرمائے ہیں۔ آنکھوں، ہونٹوں اور زبان کا ذکر فرماکر اشارہ کیا ہے کہ انسان بالخصوص مال دار آدمی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے غریبوں کے حالات دیکھے پھر ان کے ساتھ تعاون کرے اور دوسرے کو بھی تلقین کرے کہ وہ یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کا خیال رکھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے نیکی اور بدی کے راستوں کی نشاندہی کردی ہے۔ اس مقام پر مشکل گھاٹی سے مراد یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہے اور بدی سے مراد یتیموں اور مسکینوں کے حقوق سے نظریں بچانا اور ان کے حقوق غصب کرنا ہے، ہدایت سے مراد نیکی اور برائی کی نشاندہی ہے۔ یہاں نیکی کے پانچ کاموں کو مشکل گھاٹی پر چڑھنے کے مترادف قرار دیا ہے یہ پانچوں کام ایسے ہیں جن کی قرآن و سنت میں بڑی ترغیب اور فضیلت بیان کی گئی ہے یہ کام وہی انسان کرسکتا ہے جو ایمان میں سچا ہو اور اسے اپنے رب پر کامل یقین ہو کہ وہ اسے ان کاموں کا اجر عطا فرمائے گا۔ غلام کی گردن چھڑانے میں اس لیے اجر رکھا گیا ہے کہ وہ بے چارہ دوسرے کے ہاتھوں میں بے بس ہوتا ہے اور اپنی بے بسی کی وجہ سے نہ اپنی مرضی سے کوئی کام کرسکتا ہے اور نہ اپنے محسن کا بدلہ چکا سکتا ہے۔ یتیم کو کھانا کھلانے اور اس کی خدمت کرنے پر اس لیے اجر رکھا گیا ہے کہ وہ بے سہارا ہوتا ہے اور یہی حالت مسکین کی ہوتی ہے۔ ” حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد سے نبی (ﷺ) کا فرمان بیان کرتے ہوئے سنا نبی (ﷺ) نے فرمایا : تین طرح کے افراد کو دوہرا اجر عطا کیا جائے گا ان میں سے ایک وہ ہوگا جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اسے اچھی طرح تعلیم دی، اسے ادب سکھایا اور اچھے انداز سے اس کی تربیت کی پھر وہ اسے آزاد کردیا اور اس کے ساتھ نکاح کرلیا۔ دوسرایہود و نصاریٰ کا وہ شخص جو اپنے دین میں پکا تھا اور بعد ازاں نبی اکرم (ﷺ) پر ایمان لے آیا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے تیسرا وہ شخص جو غلام ہے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کے کام اور خدمت میں اس کی خیرخواہی کرتا ہے۔“ (رواہ البخاری : کتاب الجھاد و السیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا بیوہ اور مسکین کے ساتھ تعاون کرنے والا۔ اللہ کی راہ میں مجاہد کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“ (رواہ البخاری : باب فضل النفقۃ علی الأھل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (ﷺ) سے اپنے دل کی سختی کے بارے میں شکایت کی آپ نے فرمایا : اگر تو اپنے دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر۔“ (مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أبی ھریرۃ) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو آنکھیں، دوہونٹ اور زبان عطا فرمائی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دو راستوں کی نشاندہی کی ہے۔ 3۔ نیکی کے کاموں میں مشکل ترین کام غلام کو آزاد کروانا، مسکین کو بھوک کے دن کھانا کھلانا اور قریبی یتیم کی کفالت کرنا ہے۔ تفسیر بالقرآن : نیکی اور برائی کے راستے : 1۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : 7، 8) (الانعام :160) (القصص :84) (یونس :52) (النازعات :37) (الدھر :12) (احقاف :20)