لَا أُقْسِمُ بِهَٰذَا الْبَلَدِ
نہیں، میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں!
فہم القرآن: (آیت 1 سے 2) ربط سورت : سورۃ الفجر کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ“ ظالموں کو ایسی سزا دے گا کہ اس طرح کی سزا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ ان کے مقابلے میں نیک لوگوں کو اپنی رضا سے سرفراز فرمائے گا اور انہیں جنت میں داخل کرے گا۔ سورۃ البلد کے آغاز میں دو قسمیں اٹھانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ باغی انسان سمجھتا ہے کہ اسے کوئی دیکھنے والا اور اس پر کوئی قابو پانے والا نہیں حالانکہ ” اللہ تعالیٰ“ ہر وقت انسان کی نگرانی کر رہا ہے اور اسی نے اس کو دیکھنے کے لیے آنکھیں دیں، بولنے کے لیے زبان اور کھانے پینے کے لیے دو ہونٹ دئیے ہیں۔ یہ سورت بھی سورۃ القیامہ کی طرح ” لَآ اُقْسِمُ“ کے الفاظ سے شروع ہوئی ہے اس کا معنٰی یہ ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں۔ ” لا“ کا لفظ اس لیے لایا گیا ہے کہ اہل مکہ دعوت توحید کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے۔ اس پر انہیں وارننگ دی گئی ہے کہ تم جتنا زور لگانا چاہتے ہو لگا لو مگر یاد رکھو کہ تم اپنے عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ہمیں اس شہر کی قسم کہ وقت آنے والا ہے جب آپ (ﷺ) اس قدر کامیاب ہوں گے کہ آپ کے سامنے کوئی چیز بھی حائل نہیں سکے گی۔ آپ اس شہر میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ آپ کے لیے اس شہر کی حرمت حلال کردی جائے گی۔ یاد رہے کہ جب سے ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ تعمیر فرمایا ہے اس وقت سے لے کر مکہ معظمہ میں ہر قسم کا جنگ و جدال حرام ہے اور یہ حرمت قیامت تک قائم رہے گی۔ تاہم نبی (ﷺ) کے لیے فتح مکہ کے موقع پر مکہ کی حرمت کو چند گھڑیاں موقوف کیا گیا تاکہ اسے کفرو شرک سے پاک کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو فتح مکہ کے موقع پر ایسا رعب اور کامیابی عطا فرمائی کہ کوئی شخص آپ کے سامنے دم نہیں مار سکا تھا۔ آپ (ﷺ) نے چار آدمیوں کے قتل کا حکم دینے کے سوا باقی سب کو معاف کردیا۔ (عَنْ اَبِیْ شُرَیْحِ نِ الْعَدَوِیِّ اَنَّہُ قَالَ لِعَمْرٍو ابْنِ سَعِیْدٍ (رض) وَھُوَ یَبْعَثُ الْبُعْوثَ اِلٰی مَکَّۃَ اِئْذَنْ لِیْ اَیُّھَا الْاَمِیْرُ اُحَدِّ ثُکَ قَوْلاً قَامَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) الْغَدَ مِنْ یَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْہُ اُذُنَایَ وَ وَعَاہُ قَلْبِیْ وَاَبْصَرَتْہُ عَیْنَایَ حِیْنَ تَکَلَّمَ بِہٖ حَمِدَ اللّٰہَ وَاَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ اِنَّ مَکَّۃَ حَرَّمَہَا اللّٰہُ وَلَمْ یُحَرِّمْھَا النَّاسُ فَلَا یَحِلُّ لِا مْرِ ءٍ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِاَنْ یَّسْفِکَ بِھَا دَمًا وَلَا یَعْضُدَ بِھَا شَجَرَۃً فَاِنْ اَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فِیْھَا فَقُوْلُوْا لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَذِنَ لِرَسُوْلِہٖ وَلَمْ یَأْذَنْ لَکُمْ وَاِنَّمَا اَذِنَ لِیْ فِیْھَا سَاعَۃً مِنْ نَّہَارٍ وَقَدْعَادَتْ حُرْمَتُھَا الْیَوْمَ کَحُرْمَتِھَا بالْاَمْسِ وَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ فَقِیْلَ لِاَبِیْ شُرَیْحٍ مَا قَالَ لَکَ عَمْرٌو قَالَ اَنَا اَعْلَمُ بِذَالِکَ مِنْکَ یَا اَبَا شُرَیْحٍ اِنَّ الْحَرَمَ لَا یُعِیْذُعَاصِیاً وَلَا فَآراًّ بِدَمٍ وَلَا فَآرًّا بِخَرْبَۃٍ۔) (رواہ البخاری : باب لِیُبَلِّغِ الْعِلْمَ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ) ” حضرت ابوشریح عدوی (رض) بیان کرتے ہیں انہوں نے عمرو بن سعید (رض) کو فرمایا : جو مکہ مکرمہ کی طرف لشکر بھیج رہے تھے، اے امیر! مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کو رسول اکرم (ﷺ) کی ایک حدیث سناؤں۔ یہ بات نبی (ﷺ) نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی جسے میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے اسے یادرکھا۔ جب آپ (ﷺ) خطاب فرمارہے تھے تو میری دونوں آنکھیں آپ پر جمی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت بخشی ہے کسی شخص نے اسے حرمت نہیں دی جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس میں خون ریزی کرے اور حرم میں کسی درخت کو کاٹے اگر کوئی شخص مکہ میں اللہ کے رسول (ﷺ) کے قتال کو مثال بنا کراس میں لڑائی جائز سمجھے تو اسے بتاؤ۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول کو اجازت عطا فرمائی لیکن تجھے اجازت نہیں دی گئی۔ مجھے بھی بس دن کے بالکل تھوڑے وقت کے لیے اجازت دی گئی اور اب اس کی حرمت ہمیشہ کی طرح ہے، یہ بات غیر موجود لوگوں تک پہنچا دو۔ اس پر ابوشریح سے پوچھا گیا کہ پھر آپ کو عمرو نے کیا جواب دیا ؟ ابوشریح نے بتایا، اس نے جواب دیا‘ ابوشریح مجھے تم سے زیادہ اس بات کا علم ہے کہ حرم نہ کسی گنہگار کو اور نہ ہی مفرور قاتل کو اور نہ خیانت کر کے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے۔“ تفسیر بالقرآن : بیت اللہ اور مکہ معظمہ کی فضیلت اور حرمت : 1۔ دنیا میں پہلا گھر بیت اللہ تعمیر ہوا۔ (آل عمران :96) 2۔ قسم ہے اس شہر کی۔ (البلد :1) 3۔ اے میرے رب اس گھر کو امن والا بنا۔ (ابراہیم :35) 4۔ قسم ہے اس امن والے شہر کی۔ (التین :3) 5۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی اے اللہ اس شہر کو امن والا بنادے۔ (البقرۃ :126)