وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ ۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا
اور اگر تجھ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً ان کے ایک گروہ نے ارادہ کرلیا تھا کہ تجھے گمراہ کردیں، حالانکہ وہ اپنے سوا کسی کو گمراہ نہیں کر رہے اور تجھے کچھ نقصان نہیں پہنچا رہے اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور تجھے وہ کچھ سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا اور اللہ کا فضل تجھ پر ہمیشہ سے بہت بڑا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : خطاب جاری ہے۔ پہلے بیان ہونے والے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے پیغمبر (ﷺ)! اگر اللہ تعالیٰ کا آپ پر فضل و کرم نہ ہوتا تو ان میں سے ایک گروہ نے تمہیں عدل و انصاف کے راستے سے ہٹا دینے کا پکا منصوبہ بنا لیا تھا۔ اگر آپ ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ صادر فرما دیتے تو اس سے آپ کی سیرت پر حرف گیری ہوتی اور عدل و انصاف کا ترازو جھک جاتا۔ تاہم آپ کی ذات اقدس کا حقیقتاً نقصان نہ ہوتا کیونکہ آپ نے ظاہری شواہد کے مطابق فیصلہ کرنا تھا۔ معلوم ہوا کہ اگر جج سے غلط معلومات اور جھوٹی شہادتوں کے ذریعے ناحق فیصلہ کروالیا جائے تو وہ عنداللہ گناہ گار نہیں ہوگا۔ البتہ آدمی کو شعوری اور لاشعوری طور پر ہونے والے گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ جیسا کہ اوپر کی آیت میں رسول اللہ (ﷺ) کو حکم دیا گیا ہے۔ لیکن سچ کو جھوٹ بنانے اور دوسروں پر الزام لگانے والے مجرم دنیا اور آخرت میں ضرور نقصان اٹھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بروقت اس واقعہ کی حقیقت بتائی اور کتاب و حکمت عطا فرما کر وہ کچھ سکھلا دیا جو آپ اس سے پہلے نہیں جانتے تھے۔ کسی شخص کو اللہ کی طرف سے کسی غلطی پر بروقت رہنمائی ہونا اس کا بڑا ہی فضل ہوا کرتا ہے۔ آپ پر اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہوا کہ دنیا اور آخرت میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہوگا ﴿ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمْ﴾ کے الفاظ سے ان لوگوں کے باطل عقیدہ کی نفی ہوتی ہے جو آپ کی ذات کے بارے میں یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ آپ جو ہوچکا اور جو کچھ ہونے والا ہے سب کچھ جانتے تھے جیسا کہ ایک مکتبہ فکر کے ترجمان نے ابن جریر کے ضعیف قول سے اپنے عقیدے کو تقویت دینے کی ناکام کوشش کی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کو’’ ماکَان ‘‘ اور ’’ماھُوْکَائِنْ ‘‘ کا علم عطا فرمایا گیا تھا پھر انہوں نے مسلم شریف کی حدیث سے غلط مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) سب کچھ جانتے تھے حالانکہ خود ہی لکھتے ہیں : ” قرآن مجید نے کئی موقعوں پر آپ (ﷺ) کے عالم الغیب ہونے کی نفی کی ہے یہاں تک آپ کے بارے میں سورۃ الشورٰی میں فرمایا کہ اسی طرح ہم نے بذریعہ وحی بھیجا آپ کی طرف ایک جانفزا کلام اپنے حکم سے نہ آپ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔ لیکن ہم نے بنا دیا اس کتاب کو (سراپا) نور ہم ہدایت دیتے ہیں اس کے ذریعہ جس کو چاہتے ہیں اپنے بندوں سے۔ اور بلاشبہ آپ رہنمائی فرماتے ہیں صراط مستقیم کی طرف۔“ ﴿قُلْ لَّآ أَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلَّا ضَرًّا إِلَّا مَاشَآء اللّٰہُ وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَامَسَّنِیَ السُّوْٓءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ﴾ [ الأعراف :188] ” آپ کہہ دیجیے کہ ” مجھے خود اپنے نفع یا نقصان کا اختیار نہیں مگر اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ایک ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں، ان کے لیے جو ایمان لے آئیں۔“ ﴿وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَایَعْلَمُھَا إِلَّاھُوَ وَیَعْلَمُ مَافِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ إِلَّا یَعْلَمُھَا وَلَاحَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْأَرْضِ وَلَارَطْبٍ وَّلَایَابِسٍ إِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ﴾ [ الانعام :59] ” اور غیب کی چابیاں اسی کے پاس ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا بحرو بر میں جو کچھ ہے اسے وہ جانتا ہے اور کوئی پتہ تک نہیں گرتا جسے وہ نہ جانتا ہو نہ ہی زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو اور تر اور خشک جو کچھ بھی ہو سب کتاب مبین میں موجود ہے۔“ مسائل : 1۔ دوسرے کو گمراہ کرنے والا خود گمراہ اور نقصان میں رہتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتاب و حکمت عطا فرمائی اور وہ کچھ سکھلایا جو آپ پہلے نہیں جانتے تھے۔ تفسیر بالقرآن : نبی محترم (ﷺ) کے خلاف سازشیں : 1۔ نبی (ﷺ) کو قتل اور ملک بدر کرنے کی سازش۔ (الانفال :30) 2۔ نبی (ﷺ) کو اللہ کی ہدایت سے پھیر دینے کی سازش۔ (البقرۃ:109) 3۔ منافقین کی سازش مسجد ضرار۔ (التوبہ :107) (مزید دیکھیے البقرہ105)