َالْفَجْرِ
قسم ہے فجر کی!
فہم القرآن: (آیت 1 سے 5) ربط سورت : سورۃ الغاشیہ کے آخر میں ارشاد ہوا کہ سب کو ہمارے پاس آنا ہے اور ہمارے ذمہ ان کا حساب لینا ہے۔ الفجر کے آغاز میں چار قسمیں اٹھا کر بتلایا ہے کہ جس رب نے عاد، ثمود اور فرعون جیسے ظالموں کو دنیا میں عبرت ناک سزا دی۔ کیا وہ آخرت میں ظالموں کی پکڑ نہیں کرے گا؟ کیوں نہیں وہ ظالموں کی ضرور پکڑ کرے گا کیونکہ وہ بڑا طاقتور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا بھی پانچ قسموں سے فرمائی ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ قسم ہے صبح صادق کی ! قسم ہے دس راتوں کی! قسم ہے جفت اور طاق کی اور قسم ہے رات کی جب وہ ختم ہونے پر آتی ہے۔ بلاشبہ عقل مندوں کے نزدیک ان چیزوں کی قسم اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کی نشانیاں ہیں اور ہر نشانی میں عقل مند کے لیے اپنے رب کو پہچاننے کا سبق اور ثبوت موجود ہے۔ رات پر غور کریں کہ زمین و آسمانوں میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو بڑی سے بڑی ایمرجنسی میں رات کو چھوٹا یا بڑا کرسکے۔ سورج غروب ہوتے ہی رات اپنی سیاہ فام چادر میں پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیتی ہے لیکن جونہی سورج طلوع ہونا شروع ہوتا ہے، تو رات کا اندھیرا اس طرح پیچھے ہٹتا چلا جاتا ہے جس طرح کسی چیز سے آہستہ آہستہ پردہ اٹھایا جائے، راتیں بظاہر ایک جیسی ہوتی ہیں لیکن ان میں کچھ راتیں ایسی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور ان میں خاص فیصلے صادر کیے ہیں، ان راتوں میں لیلۃ القدر افضل ترین رات ہے جس میں بڑے بڑے فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ لیلۃ القدر کے بعد ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں جن میں یوم عرفہ کی رات بھی شامل ہے۔ 9ذوالحجہ کو عرفات کے مقام پر حجاج کرام حج کا رکن اعظم ادا کرتے ہوتے اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس دن ہر حاجی کے گناہ معاف کردیتا ہے بشرطیکہ وہ شرک و بدعت سے توبہ کرنے والا ہو۔ یوم عرفہ کے سورج غروب ہونے کے بعد حجاج کرام مزدلفہ میں قیام کرتے ہیں اور صبح حج کے چار ارکان ادا کرنے کے لیے منٰی کی طرف نکل پڑتے ہیں جن میں قربانی کرنا، سرمنڈوانا، کنکریاں مارنا اور طواف افاضہ کرنا شامل ہے۔ ان ایام کی دس راتیں بڑی فضیلت والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان راتوں کی فضیلت اجاگر کرنے کے لیے ان کی قسم اٹھائی ہے تاکہ ان راتوں میں اس کے بندے اس کی رحمت کے طلبگار بن جائیں اور اس کے لیے بھرپور کوشش کریں، رات کے جانے، فجر کے آنے اور جفت اور طاق دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔ جفت اور طاق کے بارے میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں جن میں دو اہم آراء یہ ہیں۔ طاق سے مراد اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات ہے اور جفت سے مراد پوری مخلوق ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے جفت یعنی جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان الفاظ کا مفہوم کما حقہ ہم نہیں سمجھ سکتے تاہم تفہیم کی آسانی کے لیے یہ کہہ سکتے ہیں کہ دن اور رات، روشنی اور اندھیرا، سورج اور چاند، زمین اور آسمان، چھاؤں اور دھوپ، حرارت اور برودت، مذکر اور مؤنث نیکی اور برائی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے پھلوں کے بھی جوڑے جوڑے پیدا کیے ہیں۔ جن میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پائی جاتی ہے، اس لیے جفت اور طاق کی قسم کھانے میں عقل مندوں کے لیے عبرت کا سبق موجود ہے۔ (عَنْ جَابِرٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ ﴿وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ﴾ قَال عَشْرُ اَ لْاُضْحِیَّۃِ، وَالْوَتْرُ یَوْمُ عَرَفَۃَ، وَالشَّفْعُ یَوْمُ النَّحْر) (مستدرک حاکم : قال الذہبی ہذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ) ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے سورۃ فجر کی ابتدائی آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عشر سے مراد دس ذوالحجہ، وتر سے مرادیوم عرفہ اور شفع سے مراد قربانی کا دن ہے۔“ (عَنْ عَائِشَۃ أنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ مَا مِنْ یَوْمٍ أَکْثَرَ مِنْ أَنْ یُعْتِقَ اللَّہُ فیہِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ یَوْمِ عَرَفَۃَ وَإِنَّہُ لَیَدْنُو ثُمَّ یُبَاہِی بِہِمُ الْمَلاَئِکَۃَ فَیَقُولُ مَا أَرَادَ ہَؤُلاَءِ) (رواہ مسلم : باب فِی فَضْلِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ وَیَوْمِ عَرَفَۃَ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ عرفہ کے علاوہ کوئی اور دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کثرت کے ساتھ بندوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہو۔ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے ان ( حجاج) کی وجہ سے فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے فجر، دس راتوں، جفت اور طاق اور رات کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ یہ چیزیں سوچنے والے کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔