سورة الغاشية - آیت 21

فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پس تو نصیحت کر، تو صرف نصیحت کرنے والا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 21 سے 26) ربط کلام : اونٹ کی خلقت، پہاڑوں کی جسامت اور زمین کی وسعت کا ذکر فرما کر دین کے داعی کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ اسے بھی اپنے آپ میں یہ اوصاف پیدا کرنے چاہیے۔ اونٹ کی خلقت، آسمان کی بلندی اور زمین کی وسعت کا تذکرہ فرما کر نبی (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ ان لوگوں کو نصیحت کرتے جائیں، آپ کا فرض نصیحت کرنا ہے کیونکہ آپ کو ان پر چوکیدار اور کو توال نہیں بنایا گیا۔ آپ کی پرخلوص کوشش کے باوجود جو شخص اس نصیحت سے منہ پھیرے اور اس کا انکار کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بڑا عذاب دے گا کیونکہ بالآخر انہیں ہمارے پاس حاضر ہونا ہے اور ان کا حساب ہمارے ذمہ ہے۔ اونٹ کی خلقت، آسمان کی بلندی اور زمین کی وسعت کا ذکر فرما کر یہ اشارہ دیا ہے کہ ایک داعی کا حوصلہ اونٹ کی طرح ہونا چاہیے جو بھوک، پیاس اور مشقت برداشت کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور اپنے مالک کی تابعداری کرتا ہے۔ آسمان کی بلندی کا ذکر فرما کر اشارہ کیا ہے کہ داعی کی سوچ اور عزم آسمان کی طرح بلند ہونی چاہیے اور اسے دنیا کے نفع و نقصان سے بالاتر ہو کر دین حنیف کی خدمت اور لوگوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے لگے رہنا چاہیے۔ زمین کا ذکر فرماکر بتلایا ہے کہ داعی میں زمین کی مانند حوصلہ اور وسعت ہونی چاہیے۔ جس داعی میں اونٹ کا حوصلہ، سوچ اور عزم میں آسمان کی بلندی اور زمین جیسی وسعت اور ظرف پایا جائے گا یقیناً وہ اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے گا۔ اگر بظاہر اپنی دعوت میں کامیاب نہ ہوپائے تو تب بھی وہ زمین و آسمان کی وسعتوں سے زیادہ اجر پائے گا۔ جہاں تک مخالفت کرنے والوں کا تعلق ہے ان کا معاملہ ” اللہ“ کے حوالے کرنا چاہیے، وہی ان سے حساب لینا والا اور ان کو سزا دینے والاہے کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ سب نے اس کے حضور پیش ہونا ہے اور اس نے ان سے حساب لینے کا ذمہ اٹھا رکھا ہے، لہٰذا داعی کا فرض نصیحت کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذمہ ان سے حساب لینا ہے۔ مسائل: 1۔ ایک داعی کو پورے اخلاص کے ساتھ لوگوں کو نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ 2۔ الدّاعی کو لوگوں پر کو توال بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ 3۔ تمام لوگوں نے بالآخر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ 4۔ جو شخص نصیحت سے منہ پھیرے اور انکار کرے گا اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو جزا دے گا اور برے لوگوں کو بڑے عذاب سے دوچار کرے گا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کا حساب لینے والا ہے : 1۔ یا اللہ میرے حق میں فیصلہ فرمادے تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یوسف :80) 2۔ بے شک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (ھود :45) 3۔ وحی کی فرمانبرداری کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ فرمادے اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یونس :109) 4۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے اور حساب لیناہمارا کام ہے۔ (الرعد :40) 5۔ سن لو ! اللہ ہی کا حکم چلتا ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام :62) 6۔ خبردار اسی کے لیے حکم ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام :62) 7۔ صبر کرو یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (الاعراف :87)