هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَن يُجَادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَم مَّن يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا
سن لو! تمھی وہ لوگ ہو جنھوں نے ان کی طرف سے دنیا کی زندگی میں جھگڑا کیا، تو ان کی طرف سے اللہ سے قیامت کے دن کون جھگڑے گا، یا کون ان پر وکیل ہوگا ؟
فہم القرآن : (آیت 109 سے 112) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جن لوگوں نے عزیز داری کی بنیاد پر چور کی حمایت اور تعصب کی بنا پر یہودی پر الزام لگایا تھا۔ اب انہیں مخاطب کیا جارہا ہے کہ تم ایسے لوگ ہو جو طرف داری اور تعصب کی بنیاد پر اس دنیا میں مجرم کے حق میں جھگڑتے ہو۔ بتاؤ قیامت کے دن رب ذوالجلال کے سامنے مجرموں کی طرف سے کون جھگڑا اور ان کی وکالت کرسکے گا؟ اس فرمان کا صاف مطلب ہے کہ کسی شخص کو مجرم کی پاسداری اور اس کے جرم کی وکالت نہیں کرنی چاہیے۔ یہ فرمان ہر وکیل کے لیے تازیانۂ عبرت رکھتا ہے۔ اس کے بعد چار مرتبہ لفظ ﴿ مَنْ﴾ استعمال کیا کہ دنیا میں کوئی بھی جان بوجھ کر گناہ کرے یا بھول کر خطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہو تو اللہ تعالیٰ یقیناً اسے معاف فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور بڑی شفقت فرمانے والا ہے۔ اس کے بعد پھر فرمایا کہ جو بھی گناہ کرے گا اس کا بوجھ دنیا اور آخرت میں اسے ہی اٹھانا پڑے گا۔ اس سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہم فلاں کے واسطے اور وسیلے سے نجات حاصل کرلیں گے اور بزرگوں کے طفیل ضرور جنت میں داخل ہوں گے۔ قرآن مجید مختلف پیرائے میں یہ بات سمجھاتا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا لہٰذا پیر ہو یا مرید‘ نبی ہو یا امتی ہر کسی کو اپنے اپنے اعمال کی جزا یا سزا پانا ہوگی۔ ہر شخص کو خوب جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نیت و عمل کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اور جس شخص نے کوئی غلطی یا گناہ کیا اور پھر اس کا الزام ایسے آدمی پر لگایا جو اس سے بری الذمہ ہے۔ ایسے شخص نے بیک وقت تہمت لگانے اور گناہ میں ملوث ہونے کا ارتکاب کیا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کھلا گناہ ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں جب یہ آیت ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ ” اپنی جانیں خرید لو یعنی نیک کاموں کے بدلے بچا لو“ نازل ہوئی تو رسول اللہ (ﷺ) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ خرید لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ بچا نہیں سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ پہنچا نہیں سکوں گا، اے عباس بن عبدالمطلب میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ کفایت نہیں کرسکوں گا، اور اے صفیہ رسول اللہ (ﷺ) کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ کفایت نہیں کرسکوں گا، اور اے فاطمہ (محمد (ﷺ) کی بیٹی)! مجھ سے میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب] مسائل : 1۔ قیامت کے دن کوئی کسی کی غلط حمایت نہیں کرسکے گا۔ 2۔ گناہ سر زدہو نے کے بعد انسان کو فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر کسی کو معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ 4۔ توبہ نہ کرنے کی صورت میں ہر کسی کو اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا اور اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ 6۔ اپنے گناہ کو دوسرے کے ذمہ لگانے والا بہتان اور گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : گناہوں کا بوجھ خود اٹھانا ہوگا : 1۔ کوئی نفس کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام :164) 2۔ ہر ایک اپنے معاملے کا خود ذمہ دار ہے۔ (البقرہ :141) 3۔ عزیز واقارب اور ہر کوئی ایک دوسرے سے بھاگ جائے گا۔ (عبس : 34، 36) 4۔ روز محشر دوست کام نہ آئیں گے۔ (البقرہ :254)