إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ
بے شک تیرے رب کی پکڑ یقیناً بہت سخت ہے۔
فہم القرآن: (آیت 12 سے 16) ربط کلام : اس سے پہلی آیات میں کفار کے ظلم اور مومنوں کے اجر کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے دونوں صفات ذکر فرما کر واضح فرمایا ہے کہ آپ کے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے اور وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ ظالموں سے انتقام لینا چاہے تو اس سے بڑھ کر کسی کی پکڑ نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ سخت ترین پکڑ کرنے والا ہے، اسی نے انسان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اور وہی اسے دوبارہ زندہ کرے گا۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ محبت کرنے والا اور ان کے گناہوں کو معاف فرمانے والاہے، بڑے عرش کا مالک اور بڑی شان والا ہے، جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے، اس کے فیصلوں کے سامنے کوئی چیز حائل نہیں ہوتی۔ وہ کسی کو پکڑنے پر آئے تو اس کی پکڑ سے کوئی چھوٹ نہیں سکتا، کسی کو معاف کرنا چاہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ ﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ہُمْ یُسْئَلُوْنَ﴾ (الانبیاء :23) ” وہ اپنے کاموں میں کسی کو جوابدہ نہیں باقی سب سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔“ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جبّار، قہّار اور انتقام لینے والا ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کو بار بار اصلاح کا موقع دیتا ہے کیونکہ اس کی رحمت اس کے غضب پر ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی کَتَبَ کِتَابًا قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ الْخَلْقَ اِنَّ رَحْمَتِیْ سَبَقَتْ غَضَبِیْ فَھُوَ مَکْتُوْبٌ عِنْدَہٗ فَوْقَ الْعَرْشِ) (رواہ مسلم : باب فِی سَعَۃِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالَی وَأَنَّہَا سَبَقَتْ غَضَبَہُ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے پہلے لوح محفوظ میں تحریر فرمایا ” میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔“ فرمایا کہ یہ اللہ کے عرش پر لکھا ہوا ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَہُ فَوْقَ عَرْشِہِ، إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی) (رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ تَعَالَی ﴿وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جب اللہ نے مخلوقات کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرمایا تو اس وقت اللہ کے عرش پر لکھا ہوا تھا بے شک میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے چکی ہے۔“ ﴿قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ قُلْ لِّلّٰہِ کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ﴾ (الانعام :12) ” فرما دیجیے کس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ؟ فرما دیجیے اللہ کا ہے اس نے اپنے اوپر رحم کرنا لکھ دیا ہے وہ تمہیں قیامت کے دن کی طرف لے جا کر ضرور جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ جن لوگوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا سو وہی ایمان نہیں لاتے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کی سخت پکڑ کرنے والا اور اپنے بندوں کے ساتھ محبت کرنے اور معاف فرمانے والا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ عظیم عرش کا مالک اور بڑی شان والا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ظالموں سے بدلہ لینے اور اپنے بندوں کو معاف فرمانے والا ہے ۔ 1۔ اے نبی! میرے بندوں کو بتاؤ کہ میں بخشنے، رحم کرنے والا ہوں اور میرا عذاب بھی دردناک ہے۔ (الحجر :49) 2۔ جو توبہ کرے اور اصلاح کرے تیرا رب بڑا غفور الرّحیم ہے۔ (النحل :119) 3۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ تمھیں معاف کر دے کیونکہ وہ غفور الرّحیم ہے۔ (النور :22) 4۔ اللہ جلد پکڑنے والا اور غفور الرّحیم ہے۔ (الانعام :166) 5۔ اللہ اپنے بندوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا کیونکہ وہ غفور الرّحیم ہے۔ (التوبہ :99) 6۔ اللہ سب گناہوں کو معاف کردینے والا اور غفور الرّحیم ہے۔ (الزمر :53) 7۔ ظالموں کے لیے صرف تباہی ہے۔ (نوح :28) 8۔ ظالموں کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ (الحشر :17)