سورة المطففين - آیت 29

إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک وہ لوگ جنھوں نے جرم کیے، ان لوگوں پر جو ایمان لائے، ہنسا کرتے تھے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 29 سے 36) ربط کلام : جہنمی کی جہنم میں جانے کی ایک وجہ اور ان کی حالت زار پر جنتی کا خوش ہونا۔ جہنمی کے جرائم میں یہ جرم بھی شامل ہوگا کہ دنیا میں انہیں اللہ کے عذاب اور قیامت سے ڈرایا جاتا تو وہ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ایمانداروں کو مذاق کیا کرتے تھے۔ جب نیک لوگوں کے پاس سے گزرتے تو اپنی آنکھوں اور ہاتھوں سے ان کی طرف اشارے کرتے تھے۔ انبیاء اور ان کے ساتھی اپنی کمزوری یا شرافت کی وجہ سے ان کے بیہودہ اشاروں کا جواب نہ دیتے تو مذاق اڑانے والے مزید تکبر کا شکار ہوجاتے اور اپنے دوست واحباب اور اہل خانہ کے پاس جا کر اس بات پر اتراتے کہ ہم نے آج ایمان کے دعویداروں کو بہت زچ کیا ہے۔ گمراہ لوگ اپنے دوست واحباب میں بیٹھ کر کہتے کہ یہ لوگ باپ داداکا دین اور اپنی قومی روایات کو چھوڑ کر گمراہ ہوگئے ہیں۔ مجرم یہ دعویٰ اور باتیں اس انداز میں اور تکرار کے ساتھ کرتے جیسا کہ یہ مومنوں پر نگران مقرر کیے گئے تھے۔ ان کی یا وہ گوئی اور بے ہودہ حرکات کا نتیجہ ہوگا کہ قیامت کے دن جنتی کفارکو مذاق کریں گے اور جنت کے تختوں پر بیٹھ کر ان کی سزاؤں کا منظر دیکھیں گے اور آپس میں کہیں گے کہ آج کفار کو ان کے برے اعمال کی پوری پوری سزا مل رہی ہے۔ ان آیات میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ گناہگار اور جرائم پیشہ لوگ خود گمراہ ہونے کے باوجود نیک لوگوں کو گمراہ اور حقیر سمجھتے ہیں۔ ” منکرین حق جب آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑاتے ہیں، کہتے ہیں کیا یہ شخص ہے جو تمہارے خداؤں کا تذکرہ کرتا ہے؟ اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ الرحمان کے ذکر کے منکرہیں۔“ (الانبیاء :36) ” جب کافر لوگ نصیحت سنتے ہیں تو تمہیں ڈراؤنی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ گویا تمہارے قدم اکھاڑ دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے۔“ (القلم :51) ﴿وَ کَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْ بَیْنِنَا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بالشّٰکِرِیْنَ﴾ (الانعام :53) ” اور اسی طرح ہم نے ان کے بعض کو بعض کے ساتھ آزمائش میں مبتلا کیا تاکہ وہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہم میں سے احسان کیا ہے ؟ کیا اللہ شکر کرنے والوں کو پوری طرح نہیں جانتا؟“ مسائل: 1۔ جہنم میں جانے والے لوگ انبیائے کرام اور ایمانداروں کو استہزاء کا نشانہ بناتے تھے۔ 2۔ جہنم میں جانے والے لوگ نیک لوگوں کو گمراہ خیال کرتے تھے۔ 3۔ تکبر کرنے والے لوگ جہنمی ہوتے ہیں۔ 4۔ جنتی حضرات جنت میں بیٹھ کر جہنم میں جلنے والوں کو مذاق کریں گے۔ 5۔ جہنمی کو جہنم میں ان کے اعمال کی پوری پوری سزادی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن : برے لوگوں کا انبیاء ( علیہ السلام) اور نیک لوگوں کو استہزا کرنا : 1۔ جب حضرت نوح کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گذرتے تھے تو ان سے مذاق کرتے تھے۔ (ہود :38) 2۔ یہ مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ (التوبہ :79) 3۔ جب وہ ہماری نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت :14) 4۔ جب بھی ان کے پاس رسول آیا تو وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (الحجر :11) 5۔ ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر وہ اس کے ساتھ استہزاء کرتے تھے۔ (الزخرف :7) 6۔ لوگوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس جب کبھی رسول آیا تو انہوں نے ان کے ساتھ استہزاء کیا۔ (یٰس :30)