إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
بے شک وہ لوگ جنھیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں، کہتے ہیں تم کس کام میں تھے؟ وہ کہتے ہیں ہم اس سر زمین میں نہایت کمزور تھے۔ وہ کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ تو یہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے۔
فہم القرآن : (آیت 97 سے 99) ربط کلام : دارالکفر میں رہنے کی بجائے صاحب ہمت لوگوں کو دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا چاہیے یہ دنیا جب سے معرض وجود میں آئی ہے اسی وقت سے لے کر حق و باطل کے معرکے پیش آتے رہے ہیں۔ حق و باطل کی اس آویزش میں ہمیں بے شمار ہجرتیں دکھائی دیتی ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا عراق سے ہجرت کر کے شام‘ مصر اور ارض مقدس کی طرف جانا اور پھر حجاز میں تشریف لا کر اپنے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کے ذریعے حجاز کو مرکز دعوت مقرر کرنا‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور جناب یوسف (علیہ السلام) کی ہجرت مصر کی طرف، سیدنا لوط (علیہ السلام) کی ہجرت علاقہ سدوم کی جانب حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی پہلی ہجرت مدین کی طرف اور اس کے بعد ہزاروں ساتھیوں سمیت فلسطین کی طرف ہجرت کرنے کا ثبوت قرآن میں موجود ہے۔ شرعی اصطلاح میں دین کی خاطر وطن چھوڑنے والے کو مہاجر اور اس عمل کو ہجرت کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نظریۂ اسلام جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا دوسرا نام ہے اس کی خاطر ہر چیز قربان کرنا لازم ہے۔ جو شخص ایمان کے لیے قربانی نہیں دیتا اور اس پر دوسری باتوں کو مقدم جانتا ہے۔ ایسا شخص ایماندار ہونے کا حق دار نہیں۔ ہجرت میں بھی یہی فلسفہ ہے کہ ناگزیر حالات میں ہمیشہ دب کر اور کمزور رہنے کے بجائے مسلمانوں کو ایسے علاقے سے ہجرت کر کے اپنی افرادی قوت کو مجتمع کر کے کفار کے مقابلے میں کھڑا ہونے کے اقدامات کرنے چاہییں۔ ہجرت ایمان کی کسوٹی ہے : اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ایسی پل صراط ہے جس کی دھار تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے ہجرت کی تکالیف و مشکلات ایمان سے خالی دل کو ننگا کردیتی ہیں یہ ایسا ترازو ہے جس میں ہر آدمی پورا نہیں اتر سکتا۔ اس پیمانے سے کھرے کھوٹے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے اسباب اور طاقت رکھنے کے باوجود ہجرت نہ کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے۔ کیونکہ انہوں نے ایمان کی نعمت‘ مسلمانوں کی اجتماعیت‘ اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر اپنے کاروبار‘ مکانات اور دنیاوی مفاد کو ترجیح دی ہے۔ البتہ وہ لوگ جو ہجرت کے لیے کوئی سبیل اور وسیلہ نہیں پاتے انہیں معاف کردینے کی امید دلائی گئی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ درگزر کرنے اور معاف فرمانے والا ہے۔ مسائل : 1۔ شرعی عذر کے بغیر اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کرنے والے ظالم ہیں۔ 2۔ جان بوجھ کر ہجرت نہ کرنے والے کو موت کے وقت فرشتے ہجرت نہ کرنے کا طعنہ دیں گے۔ 3۔ ظالموں کے لیے جہنم بدترین ٹھکانا ہے۔ 4۔ مجبور اور معذور لوگ ہجرت سے مستثنیٰ ہیں۔ 5۔ معذور اور مجبور لوگوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا۔ 6۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمانے اور بخش دینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالی معاف کرنے والا مہربان ہے: 1۔ اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔ (یوسف: 22) 2۔ تیرا پروردگار بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (الکہف: 58) 3۔ یہی لوگ اللہ تعالی کی رحمت کے امیدوار ہیں اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ: 218) 4۔ اے رب ہمیں معاف کردے اور ہم پر رحم فرماتو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ (المومنون: 109)