سورة الإنفطار - آیت 6

يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے انسان ! تجھے تیرے نہایت کرم والے رب کے متعلق کس چیز نے دھوکا دیا ؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 6 سے 12) ربط کلام : لوگوں تک ان کے اعمال نامے پہنچنے کے بعد ہر شخص کو رب کریم کا خطاب۔ جب تمام لوگوں کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق ان کے دائیں یا بائیں ہاتھ میں اعمال نامے تھما دیئے جائیں گے تو پھر ایک مرحلہ ایسا آئے گا۔ جب رب کر یم پورے جلال کے ساتھ ان لوگوں کو مخاطب فرمائیں گے۔ جنہوں نے دنیا میں رہتے ہوئے اس کے فرامین سے روگردانی کی ہوگی۔ ہر مجرم یہی سمجھے گا کہ رب ذوالجلال صرف مجھے ہی مخاطب کر رہا ہے اس لیے خطاب ہوگا کہ اے مجرم انسان! تجھے اپنے کریم رب کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا تھا۔ نہ تو نے اپنے رب کی کرم نوازیوں کا شکر ادا کیا اور نہ ہی اس کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کی حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا اور جس طرح چاہا تیری شکل و صورت بنائی اور تیرے اعضاء میں توازن پیدا کیا۔ اس کے باوجود تمہارا حال یہ ہے کہ تم قیامت کی تکذیب کرتے ہو اور یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تمہارا حساب و کتاب لینے والا کوئی نہیں ہوگا حالانکہ تم پر نگران مقرر کیے گئے ہیں جو بڑے معزز اور دیانتدار ہیں، وہ تمہاری تمام حرکات و سکنات کو ضبط تحریر میں لارہے ہیں جنہیں قیامت کے دن تمہارے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں توازن پیدا فرمایا ہے۔ انسان کے جسم کا توازن بگڑ جائے تو اس کے لیے اٹھنا اور چلنا محال ہوجاتا ہے۔ جسمانی توازن کا ذکر فرما کر انسان کو سمجھایا ہے کہ تجھے بھی دنیا اور آخرت کے معاملات میں توازن قائم رکھنا چاہئے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () یَتَعَاقَبُوْنَ فِیْکُمْ مَلَآئِکَۃٌ باللَّیْلِ وَمَلَآئِکَۃٌ بالنَّھَارِ وَیَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِیْنَ بَاتُوْا فِیْکُمْ فَیَسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَیْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَیَقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ وَاٰتَیْنٰھُمْ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ) (رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ صَلاَۃِ الْعَصْر) ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا تمہارے پاس رات اور دن باری باری فرشتے آتے ہیں، اور وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں، رات والے فرشتے چلے جاتے ہیں تو ان سے پروردگار سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ اوہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ نماز ادا کررہے تھے اور جب ہم ان سے واپس آئے تو وہ نماز ہی کی حالت میں تھے۔ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ () مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَسَیُکَلِّمُہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ بَیْنَ اللّٰہِ وَبَیْنَہٗ تُرْجُمَانٌ ثُمَّ یَنْظُرُ فَلَا یَرٰی شَیْئًا قُدَّامَہُ ثُمَّ یَنْظُرُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَتَسْتَقْبِلُہُ النَّارُ فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَتَّقِیَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍٍ۔۔ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ) (رواہ البخاری : باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم) ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا تم میں سے ہر کسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام کرے گا، اللہ اور اس شخص کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، پھر وہ دیکھے گا اس نے کیا عمل کیے ہیں، آدمی دیکھے گا تو اسکے سامنے آگ ہوگی جو بھی تم میں سے استطاعت رکھتا ہے آگ سے بچنے کی کوشش کرے چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ۔۔۔۔ یہ نہ پائے تو وہ اچھی بات کہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر مجرم کو براہ راست مخاطب فرمائے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے ہی انسان کی شکل وصورت بنائی اور اس کے وجود کو مناسب انداز میں جوڑا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر نگران اور کراماً کاتبین مقرر کر رکھے ہیں۔ 4۔ کراماً کاتبین انسان کی تمام حرکات وسکنات کو ضبط تحریر میں لاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا فرمایا ہے : 1۔ اللہ ہی نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین :4) 2۔ ” اللہ“ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم :20) 3۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر :2) 4۔ اللہ نے ایک ہی جان سے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ (الاعراف :189) 5۔ اللہ ہی پیدا کرنے والاہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف :54)