وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ
اور جب جانیں ملائی جائیں گی۔
فہم القرآن: (آیت 7 سے 9) ربط کلام : قیامت کے دوسرے مرحلے کی ابتدا۔ ہر شخص اس حقیقت کو جانتا ہے کہ جب انسان کی روح اس کے قفس عنصری سے نکل جاتی ہے تو انسان کا جسم کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں کرتا، جب جسم میں روح ہوتی ہے تو انسان کا نٹا چبھنے سے بھی تڑپ اٹھتا ہے۔ روح نکل جانے کے بعد انبیاء کرام (علیہ السلام) کے اجسام کے سوا ہر انسان کے جسم کو مٹی کھا جاتی ہے اِلّا یہ کہ جس کے جسم کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے۔ عالم برزخ میں صرف روح کو ہی اذّیت یا راحت پہنچتی ہے۔ جونہی اسرافیل دوسری مرتبہ صور پھونکے گا تو اللہ کے حکم سے ہر انسان کا جسم اپنی حالت میں آجائے گا اور اس میں روح ڈال دی جائے گی۔ جسے یوں بیان کیا ہے کہ جب جسموں کے ساتھ ان کی روحیں جوڑ دی جائیں گی۔ بعض مفسرین نے اس کا مفہوم یہ بھی لیا ہے کہ لوگوں کو ان کے اعمال کی مناسبت سے اکٹھا کردیا جائے گا یعنی چور اور ڈاکو الگ الگ کردیئے جائیں گے، بدکار اور شرابیوں کو الگ الگ کردیا جائے گا، مشرک آپس میں اکٹھے ہوں گے اور کفار کو الگ جمع کردیا جائے گا۔ لیکن قرآن مجید کے الفاظ سے پہلا مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ جونہی لوگوں کا محشر کے میدان میں حساب و کتاب شروع ہوگا تو رب ذوالجلال کی بارگاہ میں ان معصوم بچیوں کو پیش کیا جائے گا جنہیں لڑکی ہونے کی وجہ سے قتل کردیا گیا تھا۔ جن ماں باپ اور لوگوں نے بچیوں کو قتل کیا ہوگا، رب ذوالجلال انہیں مخاطب کرنے کی بجائے ان لڑکیوں اور ننھی منھی بچیوں کو مخاطب فرمائیں گے کہ تمہیں کیوں قتل کیا گیا تھا؟ وہ عرض کرے گی کہ اے ” رب“ میرے ماں باپ نے مجھے بیٹی ہونے کی بنا پر قتل کیا تھا۔ عربوں میں کچھ قبائل قبل از اسلام اپنی بیٹیوں کو درج ذیل وجوہات کی بنا پر قتل کرتے تھے۔ 1۔ جنگ کے دوران انہیں لڑکیوں کی حفاظت کرنا پڑتی تھی۔ 2۔ کچھ قبائل دوسرے کو اپنا داماد بنانے میں عار سمجھتے تھے۔ 3۔ خوردونوش اور دیگر اخراجات کے حوالے سے بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کو بوجھ تصور کرتے تھے۔ مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر عرب کے کچھ قبائل اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ (أَخْبَرَنَا الْوَلِیدُ بْنُ النَّضْرِ الرَّمْلِیُّ عَنْ مَسَرَّۃَ بْنِ مَعْبَدٍ مِنْ بَنِی الْحَارِثِ ابْنِ أَبِی الْحَرَامِ مِنْ لَخْمٍ، عَنِ الْوَضِینِ أَنَّ رَجُلاً أَتَی النَّبِیَّ (ﷺ) فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنَّا کُنَّا أَہْلَ جَاہِلِیَّۃٍ وَعِبَادَۃِ أَوْثَانٍ فَکُنَّا نَقْتُلُ الأَوْلاَدَ وَکَانَتْ عِنْدِی بِنْتٌ لِی فَلَمَّا أَجَابَتْ وَکَانَتْ مَسْرُورَۃً بِدُعَائِی إِذَا دَعَوْتُہَا فَدَعَوْتُہَا یَوْمًا فَاتَّبَعَتْنِی فَمَرَرْتُ حَتَّی أَتَیْتُ بِئْرًا مِنْ أَہْلِی غَیْرَ بَعِیدٍ فَأَخَذْتُ بِیَدِہَا فَرَدَّیْتُ بِہَا فِی الْبِئْرِ وَکَانَ آخِرَ عَہْدِی بِہَا أَنْ تَقُولَ یَا أَبَتَاہُ یَا أَبَتَاہُ فَبَکَی رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) حَتَّی وَکَفَ دَمْعُ عَیْنَیْہِ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَحْزَنْتَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) فَقَالَ لَہُ کُفَّ فَإِنَّہُ یَسْأَلُ عَمَّا أَہَمَّہُ، ثُمَّ قَالَ لَہُ أَعِدْ عَلَیَّ حَدِیثَکَ فَأَعَادَہُ فَبَکَی حَتَّی وَکَفَ الدَّمْعُ مِنْ عَیْنَیْہِ عَلَی لِحْیَتِہِ، ثُمَّ قَالَ لَہُ إِنَّ اللَّہَ قَدْ وَضَعَ عَنِ الْجَاہِلِیَّۃِ مَا عَمِلُوا فاسْتَأْنِفْ عَمَلَکَ) (رواہ الدارمی : باب ما کان علیہ الناس قبل مبعث النبی (ﷺ) من الجہل والضلالۃ) ” ولید بن نضر رملی کہتے ہیں کہ ہمیں سبرہ بن معبد یہ واقعہ وضین سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم (ﷺ) کے پاس آکر جاہلیت کے دور کا اپنا واقعہ بیان کیا۔ کہا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! ہم دور جاہلیت میں بتوں کی پوجا کرتے اور اپنی اولادوں کو قتل کرتے تھے۔ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھی، جب بھی میں اسے بلاتا تو وہ میرے پاس دوڑتی ہوئی آتی۔ ایک دن میں نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا میں اپنے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ایک کنواں کے قریب ہوا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں دھکا دے دیا۔ اس کی آخری آواز میرے کانوں میں پڑی وہ یہ تھی ہائے ابّا ! ہائے ابّا! یہ سن کر رسول اللہ (ﷺ) اتنا روئے کہ آپ (ﷺ) کے آنسو بہنے لگے۔ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے میں سے ایک نے کہا تو نے نبی اکرم (ﷺ) کو غمگین کردیا۔ آپ نے فرمایا اسے منع نہ کرو! جس بات نے اسے بے قرار کر رکھا ہے اس کے بارے میں اسے پوچھنے دو۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ اپنا واقعہ دوبارہ بیان کرو! اس نے دوبارہ بیان کیا۔ آپ (ﷺ) سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو کچھ ہوگیا اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا لہٰذا اب نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرو۔ نبی (ﷺ) کے ایک فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن حقوق العباد کے مقدامات میں سب سے پہلے قتل کے فیصلے کیے جائیں گے۔ اس آیت کی روشنی میں یہ بات اخذ کرنے کی گنجائش موجود ہے کہ قتل کے مقدمات میں سب سے پہلے فیصلے ان بچیوں کے ہوں گے جنہیں لڑکی ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) أَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِی الدِّمَاءِ) (رواہ البخاری : کتاب الدیات) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان قتل کا فیصلہ ہوگا۔“ ” اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں اور تمھیں رزق دیتے ہیں بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔“ (بنی اسرائیل :31) (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَیُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللّٰہِ أَکْبَرُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَۃَ أَنْ یَطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَۃِ جَارِکَ) (رواہ البخاری : باب قولہ ﴿ وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّه۔۔﴾) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول (ﷺ) سے سوال کیا گیا کہ کونسا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد ؟ آپ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اللہ کے رسول (ﷺ) ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، ناحق کسی جان کو قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن، مومن، بے خبر عورتوں پر تہمت لگانا۔“ (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا﴾) مسائل: 1۔ قیامت کے دن ہر روح کو اس کے جسم میں داخل کردیا جائے گا۔ 2۔ بیٹیوں کو قتل کرنا نہایت ہی سنگین جرم ہے۔ 3۔ قیامت کے دن زندہ درگور کی گئی بچی سے اس کے قاتل کو پوچھا جائے گا۔ تفسیربالقرآن : قتل کرنے کا گناہ : 1۔ جس جان کو اللہ نے تحفظ دیا ہے اسے ناحق قتل نہیں کرنا چاہیے۔ (بنی اسرائیل :33) 2۔ جس نے کسی کو بغیر حق کے قتل کردیا گویا کہ اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا۔ (المائدۃ:32) 3۔ قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کیا اور وہ خسارہ پانے والا ہوا۔ (المائدۃ:30) 4۔ جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (النساء :93) 5۔ کسی کو ناحق قتل نہ کرو۔ (الانعام :151)