سَتَجِدُونَ آخَرِينَ يُرِيدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا ۚ فَإِن لَّمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا
عنقریب تم کچھ اور لوگ پاؤ گے جو چاہتے ہیں کہ تم سے امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں، وہ جب بھی فتنے کی طرف لوٹائے جاتے ہیں اس میں الٹا دیے جاتے ہیں، تو اگر وہ نہ تم سے الگ رہیں اور نہ صلح کا پیغام بھیجیں اور نہ اپنے ہاتھ روکیں تو انھیں پکڑو اور انھیں قتل کرو جہاں انھیں پاؤ اور یہی لوگ ہیں جن کے خلاف ہم نے تمھارے لیے واضح دلیل بنا دی ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ پہلے امن پسند کفار سے لڑنے کی ممانعت فرمائی تھی اب شر پسندوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ البتہ تم ایسے منافق اور دغا باز لوگ ضرور پاؤ گے جو تم سے اور تمہارے دشمنوں سے امن میں رہنے کے نام نہاد دعوے دار ہیں۔ لیکن جونہی کوئی فتنہ اٹھتا ہے تو اس میں کود پڑتے ہیں اگر یہ لوگ تمہاری طرف صلح کا ہاتھ نہ بڑھائیں اور تم سے جنگ کرنے سے اجتناب نہ کریں تو انہیں جنگ کے دوران جہاں پکڑو مارو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی منافقت اور غداری کی وجہ سے تمہارے لیے ان کو قتل کرنے کی واضح حجت بنا دی ہے۔ مسائل : 1۔ عہد شکنی کرنے والے کے ساتھ لڑنا جائز ہے۔ 2۔ نہ لڑنے والوں سے لڑنا درست نہیں۔ تفسیر بالقرآن : جہاد کی حدود : 1۔ کفار مسلمانوں کو اذیت دیں تو انکے خلاف جہاد کرو۔ (النساء :75) 2۔ خوف دور کرنے کے لیے جہاد کرنا چاہیے۔ (النساء :84) 3۔ عہد شکن اور دغا باز لوگوں سے لڑنے کی اجازت ہے۔ (الانفال : 56، 57) 4۔ حرمت کے مہینوں میں صرف بدلے کے لیے لڑناجائز ہے۔ (البقرۃ:217) 5۔ خیانت کا اندیشہ ہو تو انہیں آگاہ کر کے عہد توڑ دو۔ (الانفال :58) 6۔ نہ لڑنے والوں سے لڑنا درست نہیں۔ (النساء :91) 7۔ اللہ اور رسول کے منکرین اور حرام کو حلال کرنے والوں سے جہاد کرو۔ (التوبۃ:29)