إِلَّا الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ أَوْ جَاءُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَن يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ ۚ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا
مگر وہ لوگ جو ان لوگوں سے جا ملتے ہیں کہ تمھارے درمیان اور ان کے درمیان عہد و پیمان ہے، یا وہ تمھارے پاس اس حال میں آئیں کہ ان کے دل اس سے تنگ ہوں کہ وہ تم سے لڑیں، یا اپنی قوم سے لڑیں اور اگر اللہ چاہتا تو ضرور انھیں تم پر مسلط کردیتا، پھر یقیناً وہ تم سے لڑتے۔ تو اگر وہ تم سے الگ رہیں اور تم سے نہ لڑیں اور تمھاری طرف صلح کا پیغام بھیجیں تو اللہ نے تمھارے لیے ان پر زیادتی کا کوئی راستہ نہیں رکھا۔
فہم القرآن : ربط کلام : ایسے منافقوں اور کافروں سے لڑنا اور انہیں قتل کرنا ضروری ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار ہوں۔ یہاں ان کفار اور منافقوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جن کے ساتھ مسلمانوں کا بقائے باہمی کا معاہدہ ہو یا وہ اسلام اور مسلمانوں کے راستے میں حائل نہ ہوں۔ یہ بات پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ اسلام جنگ جو مذہب نہیں اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ وہ ایسے لوگوں سے لڑنے کی اجازت نہیں دیتا جو صلح جو ہوں اور اسلام کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ یہاں اس بات کا اعادہ فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں سے لڑنے کی تمہیں اجازت نہیں جو تمہاری حلیف قوم کے ساتھی ہیں یا وہ تمہارے ساتھ مل کر لڑنا یا تمہارے مخالفوں کے ساتھ مل کر تم سے لڑنا پسند نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تمہیں ہرگز نہیں لڑنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردیتا۔ اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ لڑنے سے گریز کریں اور تم سے صلح کرنا چاہتے ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے لڑنے کا تمہارے لیے کوئی جواز نہیں بنایا۔ مسائل : 1۔ عہد و پیمان والے کفار کے ساتھ لڑنا جائز نہیں۔