هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ
کیا تیرے پاس موسیٰ کی بات پہنچی ہے؟
فہم القرآن: (آیت 15 سے 26) ربط کلام : قیامت کو جھٹلانے والوں میں فرعون بھی شامل تھا اس لیے اس کا دنیا میں برا انجام ہے۔ اہل مکہ قیامت کا بار بار مذاق اڑا رہے تھے اس پر انہیں انتباہ کرنے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان ہونے والی کشمکش اور اس کے نتیجہ میں فرعون کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کا حوالہ دے کر سمجھایا کہ کیا آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کا علم ہے کہ جب طویٰ وادی میں اسے اس کے رب نے فرمایا کہ فرعون کے پاس جاؤ ! کیونکہ وہ بڑا باغی بن چکا ہے جس کا بڑا سبب یہ ہے کہ وہ قیامت کا منکر ہے۔ اسے سمجھاؤ کہ کیا تو تیار ہے کہ شرک اور ظلم وستم سے بچنے کی کوشش کرے ؟ میں تیرے رب کی طرف سے تیری راہنمائی کروں تاکہ تجھ میں خوف خدا پیدا ہوجائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے پاس جا کر اسے سمجھایا اور بڑا معجزہ دکھایا مگر اس نے اسے جھٹلادیا اور نہ مانا پھر مخالفت اور مکرو فریب کرنے کے لیے پلٹا اور لوگوں کو جمع کیا، ان سے کہا کہ میں تمہارا بڑا رب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا اور آخرت میں پکڑ لیا۔ اس میں عبرت کا سبق ہے ہر اس شخص کے لیے جو اپنے رب سے ڈرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ قرآن مجید کا یہ طرز بیان ہے کہ موقع کی مناسبت سے ہر واقعہ کا اتنا ہی حصہ بیان کرتا ہے جتنا اس سے استدلال کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اسی اصول کے تحت یہاں بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا واقعہ اتنا ہی بیان کیا گیا ہے جس قدر اس سے استدلال کرتا تھا۔ ” جب موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین میں رہنے کی مدت پوری کرلی اور وہ اپنے اہل وعیال کو لے کر مصر کی طرف واپس چلے تو راستے میں طور کے قریب آگ دیکھی۔ انہوں نے اپنے گھروالوں سے فرمایا ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے شاید وہاں سے کوئی خبر لاؤں یا اس سے کوئی انگارہ اٹھا لاؤں جسے آپ تاپیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) وہاں پہنچے تو وادی کے دائیں کنارے مبارک مقام پر ایک درخت سے آواز آئی اے موسیٰ میں ہی ” اللہ“ ہوں سارے جہانوں کا مالک۔ اپنی لاٹھی پھینک دے جونہی موسیٰ نے لاٹھی پھینکی دیکھا تو لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے موسیٰ (علیہ السلام) پیٹھ پھیر کر بھاگے اور مڑکر نہ دیکھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے موسیٰ پلٹ آؤ خوف نہ کرو تو بالکل محفوظ ہے۔ (القصص : 29تا31) ” اے موسیٰ تو اور تیرا بھائی میری نشانیاں لے کر فرعون کے پاس جاؤ۔ کیونکہ وہ سرکش ہوچکا ہے اور میری یاد سے غافل نہ ہونا۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ہوسکتا ہے کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔ موسیٰ اور ہارون نے عرض کی پروردگار ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا ہم پر حملہ آور ہوگا فرمایا ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں سب کچھ سن رہا ہوں اور سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ جاؤ اس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے رب کے رسول ہیں۔ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے آزاد کر دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں جو ہدایت کی راہ اختیار کرے گا اس کے لیے سلامتی ہے ہم کو وحی کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ جو اسے جھٹلائے اور منہ موڑے گا اسے عذاب ہوگا۔ فرعون نے کہا اے موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے ؟ موسیٰ نے جواب دیا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی پھر اس کی راہنمائی فرمائی۔ فرعون نے کہا جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان کا کیا ہوگا ؟ موسیٰ نے کہا اس کا علم میرے رب کے پاس ہے جو ایک کتاب میں محفوظ ہے میرا رب نہ چوکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ (طٰہٰ: 42تا52) ” موسیٰ نے کہا مشرق ومغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ایک ہے اگر تم لوگ کچھ عقل رکھتے ہو۔ فرعون نے کہا اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو تجھے بھی ان لوگوں کے ساتھ قیدی بنا دوں گا جوقید خانوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ موسیٰ نے کہا اگرچہ میں تیرے سامنے واضح دلیل پیش کروں فرعون نے کہا اچھا اگر سچا ہے تو دلیل لاؤ موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا وہ یکایک بڑا اژدہا بن گیا پھر اپنا ہاتھ نکالا اور وہ دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہاتھا۔ فرعون نے اپنے اردوگرد پیش بیٹھے ہوئے وزیروں، مشیروں سے کہا یقیناً یہ شخص ایک ماہر جادوگر ہے۔ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زورسے تمہیں تمہارے ملک سے نکال دے اب بتاؤ تمہارا کیا فیصلہ ہے؟ انہوں نے کہا اسے اور اس کے بھائی کو روک لیں اور شہروں میں ہر کارے بھجیں جو ہر ماہر جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں چنانچہ ایک دن مقرر وقت پر جادوگر اکٹھے کرلیے گئے اور لوگوں سے کہا گیا کہ تم اس اجتماع میں شرکت کرو؟ تاکہ ہم ان جادوگروں کی پیروی کریں اگر جادوگر غالب رہے۔ جب جادوگر میدان میں آئے تو انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم غالب آگئے تو ہمیں کیا انعام ملے گا۔ ؟ اس نے کہا ہاں تم مقربین میں شامل ہوجاؤ گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوں گروں کو فرمایا پھینکو جو تم پھینکنا چاہتے ہو جادوگروں نے فوراً اپنی رسیّاں اور لاٹھیاں پھینکیں اور نعرہ لگایا کہ فرعون کی عزت کی قسم ہم ہی غالب رہیں گے پھر موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا وہ یکایک ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کو ہڑپ کرگیا اس پر تمام جادوگر بے اختیار سجدے میں گرپڑے اور بول اٹھے کہ ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے ہاں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتے ہیں، فرعون نے کہا تم میری اجازت سے پہلے ہی موسیٰ پر ایمان لے آئے ہو ؟ یہ ضرور تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادوسکھایا ہے اچھا، ابھی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ جب تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواؤں گا اور سب کو سولی چڑھادوں گا۔ انہوں نے جواب دیا کچھ پرواہ نہیں ہم اپنے رب کے حضور پہنچ جائیں گے۔ اور ہمیں امید ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کردے گا ہم سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں۔“ (الشعراء : 28تا51) ” اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کیا تو فرعون اور اسکے لشکروں نے سر کشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ فرعون غرق ہونے لگا تو کہا کہ میں ایمان لایا یقیناً سچ یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں سے ہوں، کہا گیا کیا اب ؟ حالانکہ تو نافرمان تھا اور تو فساد کرنیوالوں میں سے تھا۔“ (یونس : 90تا91) المقدس طویٰ سے مراد وہ وادی ہے کہ مدین سے مصر آتے ہوئے جہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت اور دو معجزے عطا کیے گئے۔ مسائل: 1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے بڑے بڑے معجزات پیش کیے مگر اس نے انہیں جھٹلادیا جس کے نتیجے میں دنیا میں ذلیل ہوا اور آخرت میں شدید عذاب میں مبتلا ہوگا۔ 2۔ فرعون اس قدر سرکش تھا کہ اس نے دعویٰ کیا کہ میں سب سے بڑا رب ہوں۔