سورة النبأ - آیت 12

وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نے تمھارے اوپر سات مضبوط (آسمان) بنائے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 12 سے 30) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عظیم تخلیقات کے مزید دلائل۔ اللہ تعالیٰ کی بے مثال تخلیقات میں آسمان بھی اس کی تخلیق کا عظیم شاہکار ہے جسے بغیر ستونوں کے کھڑا کیا گیا ہے اس کے حسن و کمال کے بارے میں ارشاد ہے : ” جس نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے، تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کا خلل نہیں پاؤ گے پھر پلٹ کر دیکھو کہیں تمہیں خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نظر دوڑاؤ تمہاری نظر تھک کر واپس پلٹ آئے گی۔ ہم نے آسمان دنیا کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنایا ہے شیطانوں کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔“ (الملک : 3تا5) آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کے حصے کو روشن رکھنے کے لیے چمکتا ہوا سورج بنایا۔ اس کے متعلق ارشاد ہوا ہے کہ یہ چمکنے اور بھڑکنے والاہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورج کو زمین سے ایک خاص فاصلے پر رکھا ہے۔ سورج میں اس قدر حرارت اور حِدّت ہے کہ اگر یہ اپنے مدار سے چند میل نیچے آجائے تو ہر چیز تباہ ہو کر رہ جائے۔ یہ اللہ کی قدرت کا عظیم مظہر ہے کہ سورج کو ایک مقررہ فاصلے پر رکھا اور اس میں اتنی روشنی اور تپش پیدا کی ہے کہ جس سے نہ فضا میں رہنے والی مخلوق جلتی ہے اور نہ ہی نباتات کو کوئی نقصان پہنچتا ہے اگر سورج زمین کو خاص مقدار میں روشنی اور حرارت نہ دے تو نہ فصلیں پک سکتی ہیں اور نہ ہی پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوگی۔ یہ سورج کی تپش کا نتیجہ ہے سمندر سے بخارات اٹھتے ہیں اور پھر بادل بن کر زمین پر برستے ہیں۔ اَلْمُعْصِرَاتِ“ کا معنٰی پانی، نچوڑنے والے بادل اور ” ثَجَّاجاً“ کا معنٰی بہت برسنے والی بارش۔ اگر ایک مدت تک بارش کا سلسلہ بند ہوجائے تو ہر جاندار کی خوراک ختم ہوجائے یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کا ثمرہ ہے کہ وہ بارش برسا کر اناج، سبزیاں اور باغات سے پھل پیدا کرتا ہے۔ آسمان اور سورج ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں انسان گمان کرتا ہے کہ یہ ہمیشہ رہیں گے حالانکہ جب قیامت برپا ہوگی تو ہر چیز فنا کے گھاٹ اتر جائے گی ان کے فنا ہونے کا وقت مقرر ہے۔ اس دن صور پھونکا جائے گا تو لوگ فوج در فوج زمین سے نکل کھڑے ہوں گے، قیامت کے دن آسمان کے بندھن کھول دیئے جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں آسمان دروازوں کی شکل اختیار کر جائے گا اور پھر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑے گا۔ پہاڑ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ریت کی صورت اختیار کرجائیں گے۔ ان آیات میں پہلی اور دوسری مرتبہ صور پھونکنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کا مختصر ذکر فرما کر قیامت کے دو مناظر پیش کیے ہیں۔ جس کا اختصار یہ ہے کہ اسرافیل کے پہلی مرتبہ صور پھونکنے سے ہر چیز تباہ ہوجائے گی اور دوسری مرتبہ صور پھونکنے سے انسان اپنے اپنے مرقد سے نکل کر گروہ درگروہ محشر کے میدان میں حاضر ہوجائیں گے۔ اس وقت حساب و کتاب ہوگا اور جو لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں انہیں کہا جائے گا کہ کیا تم وہی لوگ ہو جو ہمارے فرمودات کو جھٹلایا کرتے تھے، تم سمجھتے تھے کہ تمہارا حساب و کتاب رکھنے والا کوئی نہیں ہے حالانکہ ہم نے ہر چیز کا ایک کتاب میں ا ندراج کر رکھا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے جہنم گھات لگائے ہوئے ہے جو نافرمانوں کا ٹھکانہ ہے وہ اس میں مدت مدید تک پڑے رہیں گے اس میں نہ سکون پائیں گے اور نہ ہی پینے کے لیے کوئی ٹھنڈا مشروب ہوگا۔ سوائے اس کے کہ انہیں پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور جہنم کی پیپ دی جائے گی یہ سزا ان کے اعمال کا نتیجہ ہوگی اس لیے انہیں کہا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ کے لیے صرف عذاب ہی عذاب پاؤ گے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے اوپر سات آسمان بنائے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کے درمیان چمکتا اور بھڑکتا ہوا سورج بنایا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی بادلوں سے بارش نازل کرتا ہے اور بارش سے دانے، سبزیاں اور پھل پیدا کرتا ہے۔ 4۔ قیامت کا ایک دن اور وقت مقر رہے۔ 5۔ قیامت کے دن پہلی دفعہ صورپھونکنے سے آسمان دروازوں کی شکل اختیار کرجائے گا اور پہاڑ بالآخر بکھری ہوئی ریت کی طرح ہوجائیں گے۔ 6۔ قیامت کے دن دوسری مرتبہ صورپھونکنے سے لوگ اپنی اپنی جگہوں سے اٹھ کر فوج درفوج محشر کے میدان میں جمع ہوجائیں گے۔ 7۔ اللہ کے نافرمانوں کے لیے جہنم گھات لگائے ہوئے ہے جو ان کے رہنے کی بدترین جگہ ہے۔ 8۔ جہنم میں نہ سایہ ہوگا اور نہ ہی پینے کے لیے ٹھنڈا پانی۔ 9۔ جہنم کو کھولتا ہوا پانی اور ان کے زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔ 10۔ جہنمی کو اس یے جہنم میں جھونکا جائے گا کیونکہ وہ قیامت اور حساب و کتاب کا انکار کیا کرتے تھے۔ 11۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس لوح محفوظ میں ہر چیز کا اندراج کر رکھا ہے۔