مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا
جو کوئی بھلائی تجھے پہنچے سو اللہ کی طرف سے ہے اور جو کوئی برائی تجھے پہنچے سو تیرے نفس کی طرف سے ہے اور ہم نے تجھے لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کافی گواہ ہے۔
فہم القرآن : (آیت 79 سے 80) ربط کلام : نقصان پہنچنے پر منافق رسول کریم (ﷺ) کی ذات کو ذمہ دار ٹھہراتے اس ہرزہ سرائی کا جواب دیتے ہوئے اصل حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ نفع و نقصان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ لیکن انسان کو پہنچنے والے نقصان کا بنیادی سبب اس کے ذاتی کسب و عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ پہلی آیت میں یہ فرمایا ہے کہ نفع ہو یا نقصان ہر ایک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ کیونکہ وہی مختار کل اور نفع و نقصان کا مالک ہے۔ اس آیت میں اس کی یوں تشریح فرمائی ہے کہ انسان کو پہنچنے والی اچھائی اور فائدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے۔ جہاں تک برائی اور نقصان کا معاملہ ہے یہ انسان کی اپنی کوتاہی اور بے تدبیری کا صلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تودنیا میں کسی کی غلطی سے درگزر فرمائے نہ چاہے تو کوتاہی کے بدلے سرزنش یا سزا کے طور پر آدمی کی گرفت فرمائے۔ یہی بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو توحید سمجھاتے ہوئے بیان فرمائی تھی کہ شفاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور بیماری اپنی طرف سے ہوتی ہے۔ [ الشعراء :80] یہاں یہ اصول سمجھانے کے بعد فرمایا اے رسول مکرم! آپ کو دل چھوٹا کرنے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ خود لوگوں کے سامنے کھڑے نہیں ہوئے یہ تو ہم نے آپ کو پوری انسانیت کی طرف اپنا پیغام دینے والا بنا کر بھیجا اور کھڑا کیا ہے۔ لوگ تمہاری رسالت کی گواہی دیں تو یہ ان کی خوش نصیبی ہے اگر یہ انکار کردیں تو تمہیں بھیجنے والا اللہ شہادت دیتا ہے کہ آپ اس کے سچے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی شہادت تمام شہادتوں سے بڑھ کر ہے کوئی گواہی اس کی گواہی سے بہتر اور معتبر نہیں ہو سکتی۔ اس کی گواہی کے بعد کسی گواہی کی ضرورت نہیں رہتی۔ در اصل لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ آپ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ جس نے آپ کی اطاعت کی حقیقتاً اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اے نبی (ﷺ) ! تمہیں ہم نے ان پر نگہبان اور دربان بنا کر نہیں بھیجا اور نہ ہی آپ سے سوال ہوگا کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ لوگ کافر و مشرک کیوں رہے؟ آپ کا کام تو بات سمجھانا اور پہنچانا ہے یہ فرض آپ کما حقہٗ پورا کر رہے ہیں۔ نفع و نقصان کے بارے میں نبی (ﷺ) کا عقیدہ اور فرمان : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّیْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلی أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَّمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَّمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں رسول کریم (ﷺ) کے پیچھے سوار تھا آپ نے فرمایا : بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتاہوں تو اللہ کے احکامات کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا تو اللہ کو یاد کر تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرنا اور یقین رکھ کہ اگر تمام لوگ تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائیں۔ وہ اتنا ہی نفع دے سکتے ہیں جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان دینے پہ تل جائیں۔ تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔“ مسائل : 1۔ اچھائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور نقصان انسان کی کوتاہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کو نفع و نقصان کا مالک نہیں بنایا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی پر گواہ ہے۔ 4۔ رسول اللہ (ﷺ) کی اطاعت حقیقت میں اللہ کی اطاعت ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (ﷺ) کو لوگوں پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ تفسیر بالقرآن : عالمگیر نبوت : 1۔ رسول اللہ (ﷺ) پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (الاعراف :158) 2۔ رسول اللہ (ﷺ) سب کے رسول ہیں۔ (سباء :28) 3۔ رسول اللہ (ﷺ) مبشر اور نذیر ہیں۔ (الاحزاب :45) 4۔ رسول اللہ (ﷺ) رحمت عالم ہیں۔ (الانبیاء :107) 5۔ رسول اللہ (ﷺ) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب :40)