أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا
تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔ اور اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے، پھر ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : جہاد وہی کرسکتا ہے جو موت سے ڈرنے والا نہ ہو۔ موت کا تعلق قتال کے ساتھ نہیں۔ موت کا وقت‘ مقام اور سبب مقرر ہے۔ موت اپنے وقت اور مقام پر آئے گی چاہے کوئی قلعہ بند ہوجائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر کسی کو زندگی عزیز، اولاد محبوب اور مال و جان پیارے ہوتے ہیں۔ لیکن مومن اور دوسروں کا فرق یہ ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کے حکم کو دنیا جہاں کی ہر چیز سے عزیز تر سمجھ کر بے خوف و خطر میدان جنگ میں کود پڑتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ گھر ہو یا باہر، امن ہو یا جنگ میرے لیے موت کا وقت اور جگہ مقرر ہے۔ پھر منافقوں کی طرح چھپنا اور بزدلوں کی طرح پیچھے ہٹنے کا کیا مقصد؟ یہ جذبہ اس کے دل سے موت کا خوف نکال دیتا ہے تبھی تو وہ چمکتی ہوئی تلواروں اور برستے ہوئے گولوں میں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ موت اپنی مقررہ جگہ اور وقت کے بغیر ہرگز نہیں آسکتی۔ دنیا میں کتنے ہی سپہ سالار اور حکمران گزرے ہیں جن کی حفاظت کے لیے ہزاروں کمانڈوز حصار بنائے رکھتے تھے۔ لیکن جب موت کا وقت آیا تو کوئی بھی ان کی حفاظت نہ کرسکا۔ ماضی قریب میں امریکہ کا صدر کینیڈی گولی لگنے سے اس وقت ہلاک ہوا جب پولیس کے ہزاروں جوان، درجنوں انٹیلی جنس ایجنسیاں اور انتہائی چاک و چوبند مسلح گارڈز اس کی حفاظت کر رہے تھے۔ اس کے مقابلہ میں فلسطین کے صدر یاسر عرفات پر اسرائیل نے بارہا دفعہ سینکڑوں گولے برسائے یہاں تک کہ اس کے صدر مقام رملہ کا اسرائیل نے کئی مہینے محاصرہ کیے رکھا، مسلسل بمباری کی، اس کا دفتر اور رہائش کا بیشترحصہ تباہ ہوگیا لیکن موت یاسرعرفات کے قریب نہ پہنچ سکی، جب وقت آیا تو فرانس کے ایک ہسپتال سے اس کا جسد خاکی اٹھا۔ امریکہ جسے اپنے سیٹلائٹ سسٹم پر بڑا ناز ہے۔ اس کی انٹیلی جنس سے مرعوب ہو کر جنگی جغاوری بھی کہتے ہیں کہ امریکہ سے زمین پر گری ہوئی سوئی بھی نہیں چھپ سکتی۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ 2002 ء سے لے کر 2005 ء ختم ہوچکا ہے۔ افغانستان کا چپہ چپہ چھان مارنے‘ بستیوں کی بستیاں تباہ کرنے کے باوجود امریکہ اسامہ بن لادن تلاش کرسکا اور نہ کروڑوں ڈالر کی پیش کش کے باوجود کوئی اسامہ کو قتل کرسکا۔ یہاں منافقوں کی ایک اور عادت بد کا ذکر کیا گیا ہے کہ اگر ان کو کوئی فائدہ اور اچھائی پہنچے تو کہتے ہیں یہ ہماری حسن تدبیر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا ہے۔ جب کوئی نقصان پہنچتا ہے تو رسول اللہ (ﷺ) کو اذیت اور صدمہ پہنچانے کے لیے ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ یہ تمہاری بے تدبیری کا نتیجہ ہے۔ اے نبی! انہیں فرمائیں کہ نفع و نقصان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا کرتا ہے۔ کوئی کسی کو نقصان پہنچانا چاہے تو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر ایسا نہیں کرسکتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ہمیں جد وجہد کرنے کی کیا مصیبت پڑی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جو ہمارے لیے لکھ چھوڑا ہے وہ ہو کر رہے گا دراصل یہ شیطان کا حربہ ہے جس کو استعمال کرکے یہ لوگ نیکی کے کاموں سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ کیا ایسے لوگ دنیا کے معاملات کے بارے میں بھی یہ عقیدہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں؟ جہاں تک رسول گرامی (ﷺ) کا تعلق ہے آپ دنیا کے لیے رحمت اور محسن اعظم بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ آپ تو کسی کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے بلکہ آپ تو انسانیت کی خاطر بڑی بڑی تکالیف اور نقصانات اٹھاتے رہے ہیں۔ منافق کیسے بد فطرت اور غیر دانشمند لوگ ہیں کہ اس حقیقت کو بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ مسائل : 1۔ انسان قلعہ بندہو یا جہاں بھی چھپ جائے موت اسے دبوچ لے گی۔ 2۔ منافقوں کو کوئی تکلیف پہنچے تو وہ دوسروں کے ذمہ لگاتے ہیں۔ 3۔ ہر تکلیف بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔ 4۔ منافق اور کافر حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تفسیربالقرآن : موت کا ایک دن مقرر ہے : 1۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران :145) 2۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران :154) 3۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران :168) 4۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ (النساء :78) 5۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء :35) 6۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی نے مرنا ہے۔ (الرحمن : 26، القصص :88)