إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ
یقیناً پرہیزگار لوگ اس دن سایوں اور چشموں میں ہوں گے۔
فہم القرآن: (آیت 41 سے 45) ربط کلام : جس دن اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور کوئی چھوٹا اور بڑا مجرم رب ذوالجلال کے مقابلے میں کسی قسم کی چال نہیں چل سکے گا اس دن نتیجے کے اعتبار سے لوگ دو حصوں میں تقسیم ہوں گے۔ جو لگ ایمان لائے اور اپنے رب کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرتے رہے انہیں گھنے سایوں اور بہتے چشموں کی جنت میں ٹھہرایا جائے گا وہ جو چاہیں گے وہ پھل انہیں مہیا کیے جائیں گے۔ حکم ہوگا کہ اپنے نیک اعمال کے صلے میں مزے سے کھاؤ اور پیو ! ارشاد ہوگا کہ ہم نیک لوگوں کو اس طرح ہی جزا دیتے ہیں اور جن لوگوں نے قیامت کو جھٹلایا ان کے لیے تباہی ہوگی۔ ان آیات میں جنت کی تین نعمتوں سائے، بہتے چشمے اور پھلوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا یہ معنٰی نہیں کہ جنت میں صرف یہی تین چیزیں ہوں گی۔ اس سے مراد جنت کی نعمتوں کی طرف اشارہ کرنا ہے ورنہ جنت میں وہ کچھ ہوگا جس کا دنیا میں کوئی شخص تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس میں وہی لوگ جائیں گے جو اللہ، اس کے رسول اور آخرت پر ایمان لائے اور ” اللہ“ سے ڈر کر زندگی بسر کرتے رہے۔ مسائل: 1۔ متقی لوگ سایوں اور چشموں والی جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ 2۔ جنتی لوگ جنت میں جو چاہیں گے وہ پائیں گے۔ 3۔ جنتیوں کو حکم ہوگ کہ مزے سے کھاؤ اور پیو! یہ ہماری طرف سے تمہارے نیک اعمال کا صلہ ہے۔ 4۔ قیامت کو جھٹلانے والے بڑی تباہی میں مبتلا ہوں گے۔