إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَوَاقِعٌ
بے شک تم سے جس چیز کا وعدہ کیا جاتا ہے یقیناً ہو کر رہنے والی ہے۔
فہم القرآن: (آیت 7 سے 19) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے جس دن کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے پانچ قسمیں اٹھائی ہیں اس دن کی حالت یہ ہوگی۔ ہوا کی طاقت بیان کرنے کے بعد قیامت کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ جس آندھی سے تم خوف زدہ ہوتے ہو وہ قیامت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جو ہر صورت واقع ہو کر رہے گی۔ اس کا آغاز اس طرح خوفناک ہوگا کہ اس دن ستاروں کی روشنی ختم کردی جائے گی، آسمان پھاڑ دیا جائے گا، پہاڑ اڑا دیئے جائیں گے اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کے لیے وقت مقرر کیا جائے گا۔ آپ کو کیا خبر! کہ فیصلے کا دن کیسا ہوگا؟ اس دن جھٹلانے والوں کے لیے تباہی اور بربادی ہوگی۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر بتلایا ہے کہ قیامت کا دن اپنی ہولناکیوں کے اعتبار سے اس قدر سخت ہوگا کہ جس کا کوئی شخص تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس دن کی ابتدا اس طرح ہوگی کہ ستارے بے نور اور بے ثقل ہو کر گرپڑیں گے، آسمان کے بندھن ڈھیلے ہوجائیں گے اور اس میں جگہ جگہ دراڑھیں پیدا ہوجائیں اور بالآخر نیچے گر پڑے گا اسی طرح پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں گے اور یہ ریت بن کر اڑنے لگیں گے۔ پھر ایک طویل مدت کے بعد جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، محشرکا میدان قائم ہوگا جس میں لوگوں کے درمیان فیصلے کیے جائیں گے، ہر نبی کو ایک وقت دیا جائے گا جس میں وہ اپنی امت کے ساتھ رب ذوالجلال کے سامنے پیش ہوگا۔ جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور قیامت کے دن کو جھٹلایاان کے لیے اس دن کا ایک ایک لمحہ بھاری ہوگا۔ اس کے باوجود لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں کیا انہیں معلوم نہیں کہ ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ؟ پھر ان لوگوں کو ہلاک کیا جو ان کے بعد آنے والے تھے جو ان کے فکرو عمل کی پیروی کرتے تھے۔ ظالموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم مجرموں کے ساتھ اس طرح ہی سلوک کیا کرتے ہیں یہ تو دنیا میں سزا تھی اور آخرت میں انہیں ان کے کیے کی پوری پو ری سزا دی جائے گی۔ (عَنِ الْمِقْدَادِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ تُدْ نَیْ الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْھُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ فَیَکُوْنُ النَّا سُ عَلٰی قَدْرِ اَعْمَالِھِمْ فِیْ الْعَرَ قِ فَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی حَقْوَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یُّلْجِمُھُمُ الْعَرَقُ اِلْجَامًا وَاَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) بِیَدِہٖ اِلٰی فِیْہِ) (رواہ مسلم : باب فِی صِفَۃِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ أَعَانَنَا اللَّہُ عَلَی أَہْوَالِہَا) ” حضرت مقداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے سرورِدو عالم (ﷺ) کو فرماتے سنا آپ (ﷺ) فرمارہے تھے کہ قیامت کے دن سورج لوگوں سے ایک میل کی مسافت پر ہوگا لوگوں کا پسینہ ان کے اعمال کے مطابق ہوگا بعض لوگوں کے ٹخنوں تک‘ بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک اور بعض کے منہ تک پسینہ ہوگا یہ بیان کرتے ہوئے رسول معظم (ﷺ) نے منہ کی طرف اشارہ کیا۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن ستارے گِر پڑیں گے، آسمان پھاڑ دئیے جائیں گے، اور پہاڑ اڑا دئیے جائیں گے۔ 2۔ محشر کے میدان میں ہر نبی مقررہ وقت پر اپنی امت کے ساتھ اپنے رب کے حضور پیش ہوگا۔ 3۔ قیامت کا دن تکذیب کرنے والوں کے لیے بڑا بھاری ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کا دن نہایت ہی بھاری ہوگا : 1۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف :187) 2۔ جب زمین کو پوری طرح ہلا دیا جائے گا۔ (الزلزال :1) 3۔ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج :1) (القارعہ :4)