فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۚ وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
پس لازم ہے کہ اللہ کے راستے میں وہ لوگ لڑیں جو دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے بیچتے ہیں اور جو شخص اللہ کے راستے میں لڑے، پھر قتل کردیا جائے، یا غالب آجائے تو ہم جلد ہی اسے بہت بڑا اجر دیں گے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اب پھر مسلمانوں کو جہاد پر یہ کہہ کر تیار کیا جارہا ہے کہ ان لوگوں کو جنہوں نے دنیا پر آخرت کو مقدم سمجھ رکھا ہے اللہ کے راستے میں ضرور لڑنا چاہیے۔ انہیں کسی نقصان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی دنیا کو خیر باد کہہ چکے ہیں لہٰذا یہ اللہ کی راہ میں کٹ مریں یا غالب آئیں انہیں ہر دو صورتوں میں اجر عظیم سے نوازا جائے گا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ تَکَفَّلَ اللَّہُ لِمَنْ جَاہَدَ فِی سَبِیلِہِ، لاَ یُخْرِجُہُ إِلاَّ الْجِہَادُ فِی سَبِیلِہِ، وَتَصْدِیقُ کَلِمَاتِہِ، بِأَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ، أَوْ یَرْجِعَہُ إِلَی مَسْکَنِہِ الَّذِی خَرَجَ مِنْہُ، مَعَ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَۃٍ )[ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قولہ تعالیٰ ولقد سبقت کلمتنا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کا ذمہ لے لیا جسے اس کے راستے میں صرف جہاد اور اس کے کلمے کی تصدیق نے نکالا ہو کہ اسے جنت میں داخل کرے گا یا اسے اس کے اس گھر میں اجر یا مال غنیمت کے ساتھ لوٹائے گا۔“ مسائل : 1۔ منافق کامیابی کے وقت اپنی عدم حاضری پر پچھتاتا ہے۔ 2۔ کفار کے خلاف جہاد کرنے میں کامیابی یا شہادت دونوں ہی اجر عظیم کا باعث ہیں۔ تفسیر بالقرآن : مجاہد کا اجر و ثواب : 1۔ مجاہد اور غیر مجاہد برابر نہیں (النساء :95) 2۔ مجاہدین عذاب الیم سے نجات پائیں گے۔ (الصف : 10، 11) 3۔ مجاہد کے لیے جنت۔ (محمد :6) 4۔ شہید کے لیے مغفرت۔ (آل عمران :157) 5۔ مجاہدین سے اللہ تعالیٰ کی محبت۔ (الصف :4) 6۔ شہید زندہ ہیں وہ اللہ کے ہاں رزق پاتے اور بے خوف و غم ہوتے ہیں۔ (آل عمران : 170، 171)