إِنَّ هَٰؤُلَاءِ يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءَهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًا
یقیناً یہ لوگ جلد ملنے والی چیز سے محبت کرتے ہیں اور ایک بھاری دن کو اپنے پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 27 سے 31) ربط کلام : جو لوگ صبر سے کام نہیں لیتے حقیقت یہ ہے کہ وہ اعتقاداً یا عملاً آخرت کے مقابلے میں دنیا کو مقدم سمجھتے ہیں۔ صبر کا معنٰی یہ ہے کہ آدمی مصیبت کے وقت اپنے آپ پر قابو پائے اور ہر حال میں اپنے آپ کو شریعت کا پابند رکھے۔ صبر نہ کرنے والا شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر آخرت کے مقابلے میں دنیا کے مفاد اور ترقی کو مقدم سمجھتا ہے وہ اس لیے عجلت کرتا ہے کہ اس کے سامنے قیامت کے دن کی مشکلات نہیں ہوتیں اگر وہ قیامت کی مشکلات کو اپنے سامنے رکھے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ دنیا کی مشکلات آخرت کی مصیبتوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ جس کے ذہن میں یہ عقیدہ پختہ ہوجائے۔ اسے صبر کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ صبر کرنے سے ہی انسان قرآن کی تعلیمات پر عمل کرسکتا ہے۔ صبر کا دوسرا مفہوم مستقل مزاجی ہے جو مستقل مزاجی کے ساتھ صراط مستقیم پر چلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنا راستہ آسان کردیتا ہے کیونکہ اسی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اسی نے اس کے وجود کو مضبوط بنایا ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ ہم جب چاہیں تو لوگوں کی شکلیں بدل کر رکھ دیں ان الفاظ کے مفسرین نے تین مفہوم بتلائے ہیں۔ 1۔ ہم چاہیں تو انہیں ہلاک کرکے ان کی جگہ دوسرے لوگ لے آئیں جو فکرو عمل کے اعتبار سے ان سے بہتر ہوں گے۔ 2۔ ہم چاہیں تو ان کی شکلیں بدل دیں کیونکہ ہم نے ہی انہیں کمزور سے مضبوط بنایا ہے۔ 3۔ ہم چاہیں تو انہیں موت کے بعد کسی اور شکل و صورت میں پیدا کریں۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا وجود نازک اور ناتواں ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے وجود کو درجہ بدرجہ مضبوط کرتا ہے انسان کو توانا بنانے اور صبر وشکر کا راستہ بتلانے کے بعد کھلا چھوڑ دیا گیا ہے چاہے تو اپنے رب کا راستہ اختیار کرے نہ چاہے تو وہ کفر اور ناشکری کا راستہ اختیار کرلے تاہم انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر کچھ نہیں کرسکتا، یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے البتہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزمانے کے لیے مہلت دی ہے۔ انسان کو آزمانے کا یہ معنٰی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے ماضی، حال اور مستقبل کو نہیں جانتا اسے توسب کچھ معلوم ہے لیکن اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ انسان کو کھلا چھوڑ کر آزمائے کہ وہ اس کی رحمت کا حقدار بنتا ہے یا اس کے عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ جو اس کی رحمت کے لیے کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے ہمت اور توفیق عطا فرمائے گا اور اسے اپنی رحمت میں داخل کرے گا، جو اس کی رحمت سے بے پرواہی اختیار کرے گا۔ اسے مہلت دی جائے گی اور وہ ظالموں میں شامل ہوگا اور ظالموں کے لیے اذیت ناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ یہاں ایک مخصوص انداز میں ایک داعی کو تسلی دی گئی ہے کہ اس کا کام لوگوں کو بتلانا اور سمجھانا ہے۔ بے شک اس کی خواہش اور کوشش ہونی چاہیے کہ لوگ ہدایت یافتہ ہوجائیں مگر اسے یہ سمجھ لینا چا ہے کہ وہی ہوتا ہے جو اللہ رب العزت چاہتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) تَفْرَغُوْا مِنْ ہَمُوْمِ الدُّنِیَا مَا اسْتَطَعْتُمْ فَاِنَّہٗ مَنْ کَانَتِ الدُّنِیَا اَکْبَرُ ہَمَّہٗ اَفْشَی اللّٰہُ ضَیِّعَتَہٗ وَجَعْلَ فَقْرَہٗ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَمَنْ کَانَتِ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ہَمَّہٗ جَمَعَ اللّٰہُ لَہٗ اَمُوْرَہٗ وَجَعَلَ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ وَمَا اَقْبَلَ عَبْدٌ بِقَلْبِہٖ إِلَی اللّٰہِ إِلاَّ جَعَلَ اللّٰہُ قُلُوْبَ الْمُؤْمِنِیْنَ تَفِدُّ إِلَیْہِ بالْوَدِّ وَالرَّحْمَۃِ وَکَان اللّٰہُ إِلَیْہِ بِکُلِّ خَیْرٍ اَسْرَعُ) (معجم الاوسط : باب من اسمہ محمد، قال الالبانی ھٰذا حدیث ضعیف) ” حضرت ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جہاں تک ہو سکے تم دنیا کے غموں سے چھٹکارا حاصل کرلو جس نے دنیا کی فکر کو بڑ اجان لیا اللہ تعالیٰ اس پر دنیا تنگ کردے گا، محتاجی اس کی آنکھوں سے ٹپک رہی ہوگی۔ جس نے آخرت کو اپنے لیے بڑی فکر سمجھ لیا اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو سنوار دے گا۔ اس کے دل میں غنا پیدا کردے گا۔ جو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سچے دل سے متوجہ ہوجائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مومنوں کے دلوں میں محبت اور رحمت پیدا کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر بھلائی میں جلدی کرتا ہے۔“ نبی (ﷺ) کی دعا : (اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلاَ تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّأَصْلِحْ لِی شَأْنِیْ کُلَّہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ) (رواہ ابو داؤد : باب مایقول اذا اصبح) ” اے اللہ میں تیری رحمت کی امید رکھتاہوں مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا اور میرے تمام معاملات درست فرما دے تیرے علاوہ کوئی الٰہ نہیں۔“ مسائل: 1۔ بے شمار لوگ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ آخرت کا دن بڑا بھاری ہوگا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے وجود کو مضبوط بنایا۔ جب چاہے وہ اس میں تبدیلی لاسکتا ہے۔ 3۔ اللہ کی نصیحت پر عمل کرنا اس کی طرف جانے کاراستہ ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے البتہ ظالموں کے لیے اذیت ناک ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے والے لوگوں کا انجام : 1۔ جو لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں یہی دور کی گمراہی میں ہیں۔ (ابراہیم :3) 2۔ یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی بے شک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (النحل :107) 3۔ وہ لوگ جو دین کو کھیل تماشا بناتے ہیں اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا، قیامت کے دن ہم ان کو بھلا دیں گے۔ (الاعراف :51) 4۔ جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیا کو ترجیح دی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (الناز عات :39)