سورة القيامة - آیت 3

أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَّجْمَعَ عِظَامَهُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا انسان گمان کرتا ہے کہ بے شک ہم کبھی اس کی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 3 سے 9) ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل کا جواب۔ قیامت کا انکار کرنے والے جس بات کو اپنے لیے بڑی دلیل سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب ہم مر کر بے نام ونشان ہوجائیں گے تو پھر ہمیں کس طرح زندہ کیا جائے گا انہیں فرمایا ہے۔ ” کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ واضح طور پر جھگڑالو بن جاتا ہے۔ اب وہ اپنی پیدائش کو بھول کر ہم پر باتیں بناتا ہے کہ ان ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا جب یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں۔ ان سے کہیں کہ انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلی مرتبہ انہیں پیدا کیا ہے۔ وہ سب کچھ پیدا کرنا جانتا ہے اسی نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کی ہے اور تم اس سے آگ جلاتے ہو کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں کہ ان جیسوں کو پیدا کرے ؟ کیوں نہیں وہ تو سب کچھ جاننے والا اور سب کچھ پیدا کرنے والا ہے۔ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہوجا اور وہ چیز ہوجاتی ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اختیار ہے اور اسی کی طرف تم پلٹ کر جانے والے ہو۔“ (یٰس : 77تا83) اللہ تعالیٰ نے منکرین قیامت کے سامنے عملی اور عقلی دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ قیامت ہر صورت برپا ہوگی اور ہر انسان کو زندہ کرکے اٹھا لیا جائے گا۔ جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ بکھری ہوئی بوسیدہ ہڈیوں کو کس طرح اکٹھا کیا جائے گا انہوں نے کس طرح یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم بوسیدہ ہڈیوں سے انہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکتے، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نہ صرف انہیں دوبارہ پیدا کریں گے بلکہ ہم اس بات پر بھی قادر ہیں کہ ان کا جوڑ جوڑ سیدھا اور پور پور درست کرکے بنائیں گے۔ لیکن انسان دوبارہ اٹھنے کا اس لیے انکار کرتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں اور اپنی مرضی کے کام کرتارہوں یعنی اسے نہ دوبارہ زندہ کیا جائے اور نہ ہی اس سے بازپُرس کی جائے۔ اس لیے وہ قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں، ان کے پوچھنے کا مقصد قیامت کے بارے میں یقین اور اطمینان حاصل کرنا نہیں بلکہ اس کا مذاق اڑانا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب قیامت بر پا ہوگی تو اس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی، چاند بے نورہوجائے گا اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے۔ کیونکہ یہ بے نور ہو کر نیچے گر پڑیں گے۔ ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو مال کی فراوانی دی تھی۔ اس نے اپنے بیٹوں کو بلاکر کہا کہ میں تمہارا کیسا باپ تھا ؟ انہوں نے کہا بہترین! اس نے کہا یقیناً میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا، جب میں مر جاؤں تو تم مجھے جلا دینا پھر میری راکھ کو ہواؤں میں اڑا دینا اس کے بیٹوں نے اس کے مرنے کے بعد اس طرح کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو جمع کیا اور فرمایا تجھے کس چیزنے اس کام پر ابھارا تھا؟ اس نے کہا تیرے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی رحمت میں لے لیا۔“ (رواہ البخاری : کتاب احادیث الأنبیاء) ” حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کیا کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن سورج اور چاند کو اکٹھاکر کے پھینک دیا جائے گا۔ حسن (رح) نے پوچھا ان کا جرم کیا ہے ؟ ابو سلمہ (رض) نے جواب دیا کہ میں تجھے نبی (رض) کی حدیث سنا رہا ہوں۔ ابو سلمہ کی بات سن کر حسن خاموش ہوگئے۔“ (الابانۃ الکبریٰ لابن بطۃ : باب ذکر ما جاءت بہ السنۃ من طاعۃ رسول اللہ (ﷺ) ) مسائل: 1۔ قیامت کا منکر سمجھتا ہے کہ اس کی بوسیدہ ہڈیوں کو اکٹھا نہیں کیا جائے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر انسان کا جوڑ جوڑ بنائے گا اور اسے زندہ کرے گا۔ 3۔ قیامت کا انکار کرنے والے چاہتے ہیں کہ ہم اسی طرح اپنی مرضی کرتے رہیں اور ہم سے کوئی بات پرس نہ کی جائے۔ 4۔ قیامت کے دن آنکھیں چندھیا جائیں گی، چاند بے نور ہوجائے گا اور چاند اور سورج کو اکٹھا کردیا جائے گا۔