لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ
نہیں، میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں!
فہم القرآن: (آیت 1 سے 2) ربط سورت : انسان کی گمراہی کے اسباب میں سب سے بڑا سبب آخرت کی جوابدہی سے لاپرواہ ہونا اور اس کا انکار کرنا ہے اس لیے سورۃ القیامہ کی ابتدا لفظ ” لا“ سے کی گئی ہے۔ اس میں قیامت کا انکار کرنے والوں کے عقیدہ اور ان کے دلائل کی تردید کی گئی ہے۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کے عقیدہ اور دلائل کی نفی کرنے کے لیے اس سورت کی ابتدا لفظ ” لا“ سے کی گئی ہے۔ ارشاد ہوا کہ قیامت کے دن کی قسم ! جو لوگ قیامت قائم ہونے کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے عقیدہ اور دلائل میں جھوٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر قیامت کی قسم اٹھائی ہے ظاہر ہے کہ اگر قیامت کا کوئی وجود نہیں تو اللہ تعالیٰ کو اس کی قسم اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے ساتھ ہی اس نے نفس لوّامہ کی قسم کھائی ہے جس میں لطیف اشارہ ہے کہ جس طرح تم اپنے نفسِ لوّامہ کا انکار نہیں کرسکتے اسی طرح قیامت کا انکار کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں باالفاظ دیگر انکار قیامت پر نفس لوامہ بھی تمہیں ملامت کرتا ہے۔ قسم کے بارے میں پہلے بھی عرض ہوچکا ہے کہ یہ کسی بات کو پکا کرنے کے لیے اٹھائی جاتی ہے عربوں کے ہاں رواج تھا اور ہے کہ وہ دوسری اقوام کی نسبت قسمیں زیادہ اٹھاتے ہیں۔ قرآن مجید انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے اور عرب ہی قرآن مجید کے اولین مخاطب تھے۔ ان کے طرز تکلم کا خیال رکھتے ہوئے اہم باتوں کی اہمیت اور فرضیت اجاگر کرنے کے لیے قسمیں اٹھائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نفس انسانی کی تین حالتیں بیان کی ہیں : 1۔ نفس مطمئنّہ : ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا۔ (الفجر :27) 2۔ نفسِ لوّامہ : گناہ پر ملامت کرنے والا۔ (القیامہ :2) 3۔ نفسِ امّارہ : گناہ پر ابھارنے والا۔ (یوسف :53) یہ انسان کے دل کی تین حالتیں ہیں نفس مطمئنّہ صرف انبیاء کو نصیب ہوتا ہے باقی انسانوں کے نفس کی دو ہی کیفیتیں ہوتی ہیں۔ (1) نفس امّارہ اور نفس لوّامہ۔ ان دونوں کے درمیان مقابلہ رہتا ہے اگر نفس لوّامہ جیت جائے تو انسان کو نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے۔ اگر نفسِ امّارہ غالب آجائے تو آدمی برائی کا مرتکب ہوتا ہے لیکن برائی کا خمار اتر جانے کے بعد مجرم کو پریشانی ضرور لاحق ہوتی ہے اس لیے قرآن مجید نے ہابیل اور قابیل کا واقعہ بیان کرتے ہوئے قابیل کی کیفیت بیان کی ہے کہ اپنے بھائی کو قتل کرنے کے بعد قابیل کے دل کا سکون جاتا رہا۔ (المائدۃ:31) رہتی دنیا تک بدنامی اس کے مقدر میں آئی اور اس نے ظلم و زیادتی کی بری روایت قائم کی، آخرت میں جہنم کا ایندھن بنا اور ظالموں کا ساتھی قرار پایا۔ اس سے زیادہ اور نقصان کیا ہوسکتا ہے کہ جب بھی کوئی شخص ظلم کرتا ہے تو اسے ایسی ہی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ نیکی میں اطمینان ہے اور برائی میں پریشانی اور پشیمانی ہوتی ہے۔ (عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ الْأَنْصَارِیِّ (رض) قَالَ سَأَلْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالْإِثْمُ مَا حَاکَ فِی صَدْرِکَ وَکَرِہْتَ أَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تفسیر البر والاثم) ” حضرت نواس بن سمعان انصاری (رض) کہتے ہیں میں نے رسول (ﷺ) سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا نیکی حسن اخلاق ہے اور برائی جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تو ناپسند کرے کہ اس کے متعلق لوگوں کو پتا چل جائے۔“ ﴿فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْن﴾ (البقرۃ:15) ” وہ اپنی نافرمانیوں میں بھٹک رہے ہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کا قیامت کی قسم اٹھانا اس بات کا دوٹوک ثبوت ہے کہ قیامت کا واقع ہونا برحق ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا نفس لوّامہ کی قسم اٹھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کا نفس بھی اسے برائی سے روکتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : نفس انسانی کی تین حالتیں : 1۔ نفس مطمئنہ۔ ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا نفس۔ (الفجر :27) 2۔ نفس لوّامہ۔ گناہ پر ملامت کرنے والا۔ (القیامہ :2) 3۔ نفس امّارہ۔ گناہ پر ابھارنے والا۔ (یوسف :53) (تفصیل کے لیے دیکھیے فہم القرآن: ج 2، ص130)