فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
پس نہیں! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑجائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا۔
فہم القرآن : ربط کلام : پہلی آیات میں منافقین کو رسول کو مطاع تسلیم کرنے اور اللہ تعالیٰ سے معافی کی درخواست کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اب قطعی انداز میں رسول معظم (ﷺ) کو فیصل ماننے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا فیصلہ کُن انداز میں منافقوں، کافروں اور سب لوگوں کی غلط فہمی دور کی جارہی ہے کہ کسی کا ایمان اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوسکتا جب تک حضرت محمد (ﷺ) کو زندگی کے تمام معاملات میں حکم تسلیم نہ کرلیا جائے۔ جونہی آپ کا فیصلہ سامنے آئے تو اسے دل کی رغبت اور طبیعت کی چاہت کے ساتھ من وعن تسلیم کرنا ہوگا اور اس کے تسلیم کرنے میں کسی قسم کا تردد اور تأمل نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں قرآن مجید نے ” شجر“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنیٰ ایسا درخت جس کی شاخیں ایک دوسرے کے ساتھ پھنسی اور الجھی ہوئی ہوں۔ اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ تمہارے معاملات خواہ کتنے ہی الجھے اور بگڑے ہوئے کیوں نہ ہوں تمہیں ہر حال میں اللہ کے رسول کو حکم تسلیم کرنا پڑے گا۔ معاملات سیاسی ہوں یا معاشی، اخلاقی ہوں یا معاشرتی، انفرادی ہوں یا اجتماعی غرض کہ زندگی کا کوئی معاملہ اور شعبہ ہو۔ اس میں اللہ کے رسول کو حکم تسلیم کرنا لازم ہے۔ اس آیت کا شان نزول حضرت زبیر (رض) اس طرح بیان کرتے ہیں : (أَنَّ رَجُلًا مِّنَ الْأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَیْرَ عِنْدَ النَّبِیِّ (ﷺ) فِیْ شِرَاجِ الْحَرَّۃِ الَّتِیْ یَسْقُوْنَ بِھَا النَّخْلَ فَقَالَ الْأَنْصَارِیُّ سَرِّحِ الْمَآءَ یَمُرُّ فَأَبٰی عَلَیْہِ فَاخْتَصَمَا عِنْدَ النَّبِیِّ (ﷺ) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لِلزُّبَیْرِ أَسْقِ یَا زُبَیْرُ ثُمَّ أرْسِلِ الْمَآءَ إِلٰی جَارِکَ فَغَضِبَ الْأَنْصَارِیُّ فَقَالَ أَنْ کَانَ ابْنَ عَمَّتِکَ فَتَلَوَّنَ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) ثُمَّ قَالَ اسْقِ یَا زُبَیْرُ ثُمَّ احْبِسْ الْمَآءَ حتّٰی یَرْجِعَ إِلَی الْجَدْرِ فَقَال الزُّبَیْرُ وَاللّٰہِ إِنِّیْ لَأَحْسِبُ ھٰذِہِ الْآیَۃَ نَزَلَتْ فِیْ ذٰلِکَ ﴿فلَاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ﴾ [ رواہ البخاری : کتاب المساقاۃ، باب سکر الأنھار] ” انصار کے ایک آدمی کا حضرت زبیر (رض) سے پانی کے نالے کے بارے میں اختلاف ہوگیا جس سے وہ کھجوروں کو پانی دیتے تھے۔ انصاری نے کہا پانی چھوڑو اسے آگے آنے دو۔ حضرت زبیر (رض) نے انکار کیا دونوں اپنا جھگڑا رسول گرامی (ﷺ) کی خدمت میں لائے تو آپ نے حضرت زبیر (رض) سے فرمایا زبیر! پانی لگا کر ہمسائے کے لیے چھوڑ دو۔ انصاری نے غضبناک ہو کر کہا وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہوا۔ آپ (ﷺ) کا چہرہ متغیر ہوگیا پھر رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا زبیر! پانی لگا جب تک وہ منڈیروں تک نہ پہنچ جائے پانی کو روکے رکھنا۔ حضرت زبیر (رض) فرماتے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت ﴿فَلاَ وَرَبِّکَ﴾ اس موقعہ پر نازل ہوئی ہے۔“ ” حضرت معقل بن یسار (رض) نے رسول اللہ (ﷺ) کے دور میں مسلمانوں کے ایک آدمی سے اپنی بہن کی شادی کی وہ اس کے پاس کچھ عرصہ رہی پھر اس نے اسے ایک طلاق دی اور عدت بھی گزر گئی لیکن رجوع نہ کیا۔ اب پھر دونوں ایک دوسرے کو چاہنے لگے پھر اس آدمی نے منگنی کے لیے آدمی بھیجا تو معقل بن یسار (رض) نے کہا : کمینے! میں نے تیری عزت کرتے ہوئے اس کے ساتھ شادی کی اور تو نے اسے طلاق دے دی۔ اللہ کی قسم اب کبھی یہ تیرے پاس نہیں لوٹے گی یہ آخری باری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں میاں بیوی کے جذبات کو قبول کیا تو یہ آیت نازل فرمائی ﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ﴾ جب معقل بن یسار (رض) نے یہ آیت سنی تو کہا کہ’’ سَمْعًا لِّرَبِّیْ وَطَاعَۃً ‘‘میں نے اپنے رب کی بات کو سنا اور مان لیا۔ پھر انہوں نے اس آدمی کو بلایا اور کہا میں تیری شادی بھی کرتا ہوں اور عزت بھی۔“ [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ البقرۃ] مسائل : 1۔ رسول اللہ (ﷺ) کو فیصل تسلیم کیے بغیر لوگ ہرگز ایمان دار نہیں ہو سکتے۔ 2۔ رسول محترم (ﷺ) کا فیصلہ دل و جان سے ماننا ایمان ہے۔ تفسیر بالقرآن : مقام نبوت : 1۔ رسول محترم بہترین اسوہ ہیں۔ (الاحزاب :21) 2۔ ہر معاملہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانا چاہیے۔ (النساء :59) 3۔ اللہ اور رسول سے آگے نہ بڑھو۔ (الحجرات :1) 4۔ رسول جو تمہیں دے اسے پکڑلو۔ (الحشر :7) 5۔ رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ (النساء :80) 6۔ اللہ کی محبت رسول کی اطاعت میں ہے۔ (آل عمران :31) 7۔ رسول کی مخالفت سے اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ (محمد :33)