وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے اور اگر واقعی یہ لوگ، جب انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آتے، پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول ان کے لیے بخشش مانگتا تو اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان پاتے۔
فہم القرآن : ربط کلام : خطاب کا تسلسل جاری ہے۔ اس میں منافقوں کو توبہ کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے رسول کا مرتبہ اور مقام بیان کرنے کے ساتھ اپنی شفقت ومہربانی کا ذکر فرمایا ہے۔ رسول معظم (ﷺ) کے بارے میں فرمایا کہ اس کی شان اور مقام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اس میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ملمع سازی یا محض دعووں کی بنیاد پر رسول کی ذات کو خوش کرلیا جائے تو اس سے کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ جب تک حقیقتاً قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق آپ کی اطاعت نہ کی جائے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی لاتعداد رحمتوں کا تعلق ہے وہ اس قدر بے کنار ہیں کہ جب بھی کوئی شخص خواہ اس کا ماضی کتنا ہی گھناؤنا اور منافقانہ کیوں نہ ہو۔ اخلاص نیت کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ کے رسول کے تابع کرکے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا تو وہ اپنے رب کو شفیق و مہربان پائے گا۔ یہی بات منافقوں کو کہی گئی کہ کتنا ہی بہتر ہوتا کہ وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھنے کے بعد رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے اپنی بخشش کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی درخواست کرتے۔ بلا شبہ اللہ کو اپنے بارے میں معاف کرنے والا اور انتہائی مہربان پاتے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مفسر نے اپنے عقائد کی حمایت میں قرطبی کے حوالے سے ایک واقعہ ذکر کیا ہے جو نہ صرف قرآن و سنت کے نقطۂ نظر کے خلاف ہے بلکہ تاریخی حقائق بھی اس کی تائید نہیں کرتے وہ لکھتے ہیں : ” سیدنا حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی (ﷺ) کے وصال کے تین روز بعد ایک اعرابی ہمارے پاس آیا اور فرط رنج و غم سے مزارِ پُرانوار پر گر پڑا اور خاک پاک کو اپنے سر پر ڈالا اور عرض کرنے لگا۔ اے اللہ کے رسول! جو آپ نے فرمایا ہم نے سنا جو آپ نے اپنے رب سے سیکھا وہ ہم نے آپ سے سیکھا۔ اسی میں یہ آیت بھی ہے ﴿وَلَوْأَنَّھُمْ إِذْظَّلَمُوْا﴾ الخ میں نے اپنی جان پر بڑے بڑے ستم کیے ہیں اب آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں۔ اے سراپاۓ شفقت و رحمت! میری مغفرت کے لیے دعا فرمایئے۔ فَنُوْدِیَ مِنَ الْقَبْرِ أَنَّہٗ قَدْ غُفِرَلَکَ۔ ” تو مرقد منور سے آواز آئی تجھے بخش دیا گیا۔“ نوٹ: اس واقعہ کی سند سخت ضعیف ہے۔ مزید تفصیل کے لئے البانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’وسیلہ اور اس کے احکام‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔ قرآن مجیدنے دو ٹوک انداز میں فرمایا ہے ﴿وَمَا یَسْتَوِی الْأَحْیَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّہَ یُسْمِعُ مَنْ یَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُور﴾[ فاطر :22] کہ رسول اللہ (ﷺ) بھی قبر والوں کو سنا نہیں سکتے چہ جائیکہ ایک اعرابی آپ کو آکر کوئی فریاد سنائے اور آپ جواب دیں۔ اگر یہ عقیدہ کسی لحاظ سے بھی ثابت ہوتا یا اس کی ذرّہ برابر گنجائش ہوتی تو آپ کی وفات کے وقت جب آپ کا جسدِ مُبارک موجود تھا تو صحابہ میں تین بڑے اختلافات ابھر کر سامنے آئے۔ آپ کو کہاں دفن کیا جائے؟ خلافت کے لیے کون سی شخصیت زیادہ موزوں ہے؟ یہاں تک کہ آپ کے فوت ہونے پر بھی دو نقطۂ نظر تھے۔ حضرت عمر (رض) کی رائے تھی کہ ابھی مدینہ میں منافق موجود ہیں اور اسلام کا غلبہ بھی پوری طرح نہیں ہوا لہٰذا آپ کو موت نہیں آئی۔ حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے حضرت عمر (رض) کے موقف کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول محترم (ﷺ) فوت ہوچکے ہیں پھر انہوں نے اپنے خطبہ میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے : (مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْمَاتَ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُاللّٰہَ فَإِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَایَمُوْتُ) ” تم میں سے جو محمد (ﷺ) کی عبادت کرتا تھا یقینًا محمد (ﷺ) وفات پاگئے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو یقینًا اللہ تعالیٰ زندہ ہے اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔“ پھر اس آیت کی تلاوت کی : (﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّرَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ﴾ الخ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب الدخول علی میت الخ] ” محمد (ﷺ) تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے بھی رسول گزر گئے۔“ یاد رہے کسی صحابی نے یہ بات نہیں فرمائی کہ بھائیو کیوں جھگڑتے ہو چلو آپ کے جسد اطہر سے عرض کرتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت آپ (ﷺ) کا جسد اطہر ابھی قبر سے باہرجلوہ نما تھا۔ مسائل : 1۔ رسول کی بعثت کا مقصد اس کی اطاعت کرنا ہے۔ 2۔ لوگوں کو ہر دم اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتے رہنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی مہربان اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش کی دعوت : 1۔ منافق اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگنے سے انحراف کرتے ہیں۔ (المنافقون :5) 2۔ گناہ اللہ ہی بخشتا ہے۔ (آل عمران :135) 3۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر :53) 4۔ انبیاء کی دعوت اللہ سے بخشش مانگنا ہے۔ (نوح :10) 5۔ اللہ تعالیٰ کا اعلان کہ میں بخشنے والا ہوں۔ (الحجر :49)