فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ
سو جب صور میں پھونکا جائے گا۔
فہم القرآن: (آیت 8 سے 25) ربط کلام : اللہ کے رسول نے جونہی لوگوں کو اللہ کی توحید کی دعوت دی تو وہ لوگ آپ کی جان کے دشمن ہوگئے اور انہوں نے آپ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ ایسے لوگوں کو ان کا انجام بتلایا گیا ہے کہ آج تم اپنی طاقت پر گھمنڈ کرتے ہو۔ وہ وقت یاد کرو جس دن صور پھونکا جائے گا۔ انکار کرنے والوں کے لیے یہ دن بڑا سخت ہوگا اور اس کی سختی کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ سرداران مکہ نے بڑی کوشش کی کہ نبی (ﷺ) کی دعوت کی طرف لوگ متوجہ نہ ہوسکیں لیکن دعوت کی کشش، آپ کے اخلاق اور آپ (ﷺ) کی عظیم جدوجہد کے نتیجہ میں لوگ آپ کی ذات کے گرویدہ اور توحید کی دعوت قبول کیے جا رہے تھے یہ بات سرداران مکہ کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھی۔ اس کے لیے وہ سرجوڑ کر بیٹھتے اور غور کرتے کہ اس دعوت کو کس طرح روکا جائے بالخصوص حج کے موقع پر ان کی نیندیں حرام ہوجاتیں، وہ بار بار اس بات پر غور کرتے کہ زائرین حرم کو آپ کی ذات اور دعوت سے کس طرح روکا جائے۔ اسی ایجنڈے کے پیش نظر سرداران مکہ نے ایک نمائندہ اجلاس بلایا اور لوگوں کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا کہ حج کی آمد آمد ہے۔ اس لیے ہمیں پہلے سے ہی اس بات کی منصوبہ بندی کرلینی چاہیے تاکہ ہمارے مؤقف میں کوئی تضاد نہ پایا جائے اس طرح ہم لوگوں کو (محمد (ﷺ) سے روک سکتے ہیں۔ ایک شخص نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم لوگوں کو یہ بات کہیں گے کہ یہ شاعر ہے اور شاعرانہ کلام سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے۔ صدر مجلس ولید نے اس بات کی تردید کی کہ ہم شاعرانہ کلام کو اچھی طرح سمجھتے ہیں یہ بات آپ پر لاگو نہیں ہوتی۔ دوسرے نے کہا کہ ہم اسے کاہن کے طور پر پیش کریں گے لیکن ولید نے اس کی بھی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کاہن تو اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں یہ الزام بھی اس پر صادق نہیں آتا بالآخر اس نے خود تجوید دی کہ ہم اسے جادو گر کہیں گے کیونکہ اس کے کلام میں جادو کا اثر پایا جاتا ہے جو بھی اس کی بات توجہ سے سنتا ہے وہ اس کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس پر مجمع نے اسے بڑی داد دی جس پر اس نے فاخرانہ انداز میں ناک چڑھائی اور منہ بسوڑا اور متکبرانہ انداز میں مجلس برخواست کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا، پھر پوری رعونت کے ساتھ اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔ بظاہر تو یہ ایک شخص کا واقعہ ہے لیکن حق سے روگردانی کرنے والا ہر بڑا شخص ایسا ہی کردار رکھتا ہے۔ اس لیے اس کے کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے یوں انتباہ کیا گیا۔ مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دیں جسے میں نے اکیلا پیدا کیا اور اسے بہت سا مال دیا اور اس کو بیٹے دیئے جو ہر وقت اس کے سامنے حاضر رہتے ہیں اور اسے ہر طرح کی کشادگی دی اس کے باوجود یہ امید رکھتا ہے کہ اسے مزید دیا جائے یہ ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ عناد رکھتا ہے عنقریب کٹھن منزل کی طرف چڑھایا جائے گا۔ اس نے سوچا اور اپنی طرف سے بات بنانے کی کوشش کی، اس پر اللہ کی مار ہو کیونکہ اس نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور رسول (ﷺ) پر جادوگر ہونے کا الزام لگایا پھر لوگوں کی طرف فاخرانہ انداز میں دیکھا اور اپنی پیشانی پر تیور چڑھائے، منہ بسوڑا اور متکبرانہ انداز میں اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ یہ تو پہلے دورکا جادو ہے جو اسی طرح چلا آرہا ہے اور انسان کا بنایا ہوا کلام ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا۔ ان آیات میں ولید بن مغیرہ کا کردار اور اس کے گھریلو حالات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو بہت سامال دیا اور بارہ بیٹے عطا فرمائے جو ہر وقت اس کے حکم کے منتظر رہتے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے نبی (ﷺ) کی دعوت پر غور کرتا اور حلقہ اسلام میں داخل ہوجاتا لیکن اس نے اپنی مالی حیثیت اور افرادی قوت کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوا۔ ذلیل اور نافرمان ہونے کے باوجود اس کی خواہش اور کوشش تھی کہ مجھے اور زیادہ مال و اسباب دیئے جائیں تاکہ میں عرب کا بادشاہ بن جاؤں۔ فرمایا کہ اب اسے کچھ نہیں دیا جائے گا اب تو اس کا مقدر بربادی ہے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ عناد رکھتا ہے عنقریب اسے مشکل ترین گھاٹی پر چڑھایا جائے گا اس نے برا سوچا اور بری بات بنانے کی کوشش کی اس پر اللہ کی مار ہے۔ گھاٹی سے مراد مشکل اور زلت ہے چنانچہ یہ شخص بدر کے میدان میں ذلّت کی موت مرا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ جسے مال اور اولاد دے اسے چاہیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے۔ 2۔ جو شخص اللہ کی آیات کی پرواہ نہیں کرتا اور دین کے بارے میں بری باتیں بناتا ہے۔ 3۔ ” اللہ“ کی آیات سے منہ پھیرنا اور تکبر کرنا انتہا درجے کا جرم ہے۔ 4۔ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اسے جادو یا کسی انسان کا کلام کہنا اس کے ساتھ کفر کرنا ہے۔ 5۔ جو شخص قرآن مجید کو کسی انسان کا کلام قرار دیتا اسے جہنم میں دھکیلاجائے گا۔ 6۔ جہنم کی آگ مجرموں کی چمڑیاں ادھیڑ دے گی۔ تفسیر بالقرآن : جہنم کی آگ کی تفصیل۔ 1۔ جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ (البقرۃ:167) 2۔ جہنم سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔ (الزخرف :77) 3۔ جہنم میں موت و حیات نہیں ہوگی۔ (طٰہٰ:74) 4۔ جہنم کی سزا میں وقفہ نہیں ہوگا۔ (فاطر :36) 5۔ جہنم کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔ (الفرقان :65) 6۔ جہنم بدترین ٹھکانا ہے۔ (آل عمران :197) 7۔ جہنمی کو آگ کے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا۔ (ہمزہ :9)