إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ رَسُولًا
بلاشبہ ہم نے تمھاری طرف ایک پیغام پہنچانے والا بھیجا جو تم پر گواہی دینے والا ہے، جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک پیغام پہنچانے والا بھیجا۔
فہم القرآن: (آیت 15 سے 16) ربط کلام : جن مکذبین کو بیڑیوں سے جکڑا جائے گا اور ان کو اذّیت ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ان میں سرِفہرست فرعون اور اس کے پیروکار ہوں گے۔ سورہ مزمل کی چوتھی آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ ہم آپ پر بھاری فرمان نازل کرنے والے ہیں اس کی تفسیر کرتے ہوئے یہ عرض کی ہے کہ کفار اور مشرکین کے سامنے قرآن مجید کی دعوت پیش کرنا فی نفسہٖ بڑا مشکل اور بھاری کام ہے۔ اس بھاری کام کو آپ (ﷺ) صبح وشام مکہ اور اس کے گرد ونواح میں سرانجام دے رہے تھے۔ اس کا رد عمل وہی تھا جس کا مظاہرہ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے کیا تھا۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کا انجام بتلانے کے لیے اہل مکہ کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے تمہاری طرف ایسا رسول مبعوث کیا ہے جیسا رسول فرعون کی طرف مبعوث کیا تھا، فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی جس کے نتیجے میں ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کی سخت ترین گرفت کی۔ ﴿النَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْا آلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (المؤمن :46) ” آل فرعون صبح وشام جہنم کی آگ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، اور قیامت کے دن حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو۔“ (عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) فَقُلْتُ قَدْ قُتِلَ أَبُو جَہْلٍ اَوْ قَدْ قَتَلْتُ أَبَا جَہْلٍ قَالَ أَنْتَ رَأَیْتَہُ ؟ قُلْتُ نَعَم قَال آللَّہِ مَرَّتَیْنِ ؟ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاذْہَبْ حَتَّی أَنْظُرَ إِلَیْہِ فَذَہَبَ فَأَتَاہُ وَقَدْ غَیَّرَتِ الشَّمْسُ مِنْہُ شَیْئًافَأَمَرَ بِہِ وَبِأَصْحَابِہِ فَسُحِبُوا حَتَّی أُلْقُوا فِی الْقَلِیبِ قَالَ وَأُتْبِعَ أَہْلُ الْقَلِیبِ لَعْنَۃً وَقَالَ کَانَ ہَذَا فِرْعَوْنَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ) (رواہ احمد : باب حدیث العباس، اسنادہ ضعیف) ” حضرت ابو عبیدہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے باپ نے کہا کہ میں نبی اکرم (ﷺ) کے پاس آیا میں نے کہا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! ابوجہل قتل ہوگیا ہے یا میں نے ابو جہل کو قتل کردیا ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا تو نے اس کو دیکھا ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں! آپ نے دو مرتبہ اللہ کی قسم کھائی میں نے کہا جی ہاں! آپ نے فرمایا میرے ساتھ چلو یہاں تک کہ میں بھی اسے دیکھ لوں۔ آپ چلے، جب اس کی لاش کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ دھوپ کی وجہ سے اس کا رنگ تبدیل ہوچکا ہے۔ آپ (ﷺ) نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو کنویں میں ڈالنے کا حکم دیا تو انہیں گندے پانی کے کنویں میں پھینک دیا گیا۔ پھر کنویں والوں پر لعنت کی گئی۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا ابوجہل اس امت کا فرعون ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کی نبوت کو موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے ساتھ مشابہ قرار دیا۔ 2۔ جس طرح فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت اور نافرمانی کی اسی طرح اہل مکہ نے نبی (ﷺ) کی مخالفت اور نافرمانی کی۔ 3۔ جس طرح فرعون اور اس کے ساتھیوں کا انجام ہوا بالکل ایسے ہی ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کا بدترین انجام نکلا۔ تفسیربالقرآن: فرعون اور اس کے ساتھیوں کا انجام : 1۔ ہم آج تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنائیں۔ (یونس :92) 2۔ ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور آل فرعون کو غرق کیا۔ (الاعراف :64) 3۔ ہم نے فرعونیوں سے انتقام لیا اور انہیں دریا برد کردیا۔ (الزخرف :55) 4۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل :103) 5۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الشعراء :66) 6۔ ہم نے انہیں اور ان کے لشکروں کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا۔ (الذاریات :40) 7۔ قیامت کے دن (فرعون) اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا اور وہ انہیں دوزخ میں لے جائے گا۔ (ہود :98)