يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ
اے کپڑے میں لپٹنے والے!
فہم القرآن: (آیت 1 سے 4) ربط سورت : سورۃ الجن کے آخر میں یہ ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ جو وحی اپنے رسول پر بھیجتا ہے اس کی حفاظت کے لیے اس کے آگے پیچھے پہرے دار مقرر کرتا ہے تاکہ اس کی وحی من و عن اس کے رسول تک پہنچ جائے۔ الرّسول (ﷺ) کے منصب کا پہلا تقاضا ہے کہ رسول اس وحی کو یاد رکھے اور اسے لوگوں تک پہنچائے۔ یاد رکھنے کے لیے آپ کو تہجد پڑھنے کا حکم ہوا تاکہ ایک طرف آپ کو قرآن پر غور کرنے کا موقع ملے اور دوسری طرف آپ لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنے آپ پر ضبط کرنے کے عادی ہوجائیں کیونکہ تہجد اس کے آداب کے ساتھ ادا کی جائے تو آدمی کو اپنی طبیعت پر قابو پانا آسان ہوجاتا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) چادر اوڑھ کر آرام فرماتھے کہ جبریل امین تشریف لائے اور انہوں نے سورۃ المزّمل کے پہلے رکوع پر مشتمل چند آیات تلاوت کیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بڑے ہی پیارے انداز میں آپ (ﷺ) کو مخاطب فرمایا کہ اے کپڑا اوڑھنے والے رسول! پوری رات سونے اور آرام کرنے کی بجائے آدھی رات یا اس سے کم قیام کیا کرو بلکہ اس سے کچھ زیادہ کرو اور قیام میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ قیام الیل کے دورانیہ کے لیے تین الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ آدھی رات یا اس سے کم یا اس سے کچھ زیادہ قیام کریں۔ آدھی رات یا اس سے کم کی اجازت اس لیے دی گئی تاکہ موسم اور طبیعت کالحاظ رکھتے ہوئے پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ رات کا قیام ہو سکے۔ تلاوت قرآن کا بنیادی اصول یہی ہے کہ اسے ٹھہر ٹھہر کر پوری توجہ کے ساتھ پڑھا جائے۔ تہجد میں یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ وقت بڑا ہی سہانا اور بابرکت ہوتا ہے۔ اس میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید پڑھا جائے تو انسان کی طبیعت پر بڑے ہی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اہل علم نے ترتیل کا معنٰی یہ لیا ہے کہ جن آیات میں عذاب کا تذکرہ ہو تو ان میں انسان کو اپنے رب سے ڈرنا چاہیے اور اس سے پناہ مانگنا چاہیے۔ جن آیات میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی جنت کا تذکرہ ہو تو ان آیات کی تلاوت کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے التجا کرنی چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے احکام اور ارشادات پر بھی غور وفکر کرنا فرض ہے۔ فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے جسے نفل قرار دیا گیا ہے۔ نفل کا معنی ہے۔ ” زائد چیز“ رسول محترم نے نوافل کا فائدہ ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ قیامت کے دن فرض نماز کی کمی، بیشی نفل نماز سے پوری کی جائے گی۔ بعض اہل علم کے نزدیک آپ (ﷺ) پر پہلے تہجد فرض تھی بعد ازاں اسے نفل قرار دے دیا گیا۔ (بنی اسرائیل :79) تہجد کا لفظ ” جہد“ سے نکلاہے۔ جس کا مطلب ہے کوشش کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ ” نیند کے بعد بیدار ہونا“ ظاہر ہے یہ کام ہمت اور کوشش کے بغیر نہیں ہوتا اس لیے کچھ اہل علم ضروری سمجھتے ہیں کہ تہجد کچھ دیر سونے کے بعد پڑھنی جائے۔ ان کے بقول سونے سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل تہجد شمار نہیں ہوتے لیکن احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمی اپنی صحت اور فرصت کے مطابق رات کے کسی حصے میں تہجد پڑھ سکتا ہے۔ البتہ اس کا افضل ترین وقت آدھی رات کے بعد شروع ہوتا ہے۔ سحری کا وقت حاجات و مناجات اور سکون و اطمینان کے لیے ایسا وقت ہے کہ لیل و نہار کا کوئی لمحہ ان لمحات کا مقابلہ نہیں کرسکتا زمین و آسمان کی وسعتیں نورانی کیفیت سے لبریز ہوتی ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَآء الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرِ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَأسْتَجِیْبَ لَہُ مَنْ یَسْاَلنِیْ فأُعْطِیَہٗ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَلَہُ) (رواہ البخاری : باب التحریض علی قیام الیل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتے ہیں : کون ہے مجھ سے طلب کرنے والا میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اسکوبخش دوں۔“ (عَنْ یَعْلَی بْنِ مَمْلَکٍ أَنَّہُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ (ﷺ) عَنْ قِرَاءَ ۃِ رَسُول اللہِ (ﷺ) وَصَلاَتِہِ، قَالَتْ مَا لَکُمْ وَصَلاَتِہِ کَانَ یُصَلِّی ثُمَّ یَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّی ثُمَّ یُصَلِّی قَدْرَ مَا نَامَ ثُمَّ یَنَامُ بِقَدْرِ مَا صَلَّی حَتَّی یُصْبِحَ ثُمَّ نَعَتَتْ لَہُ قِرَاءَ تَہُ فَإِذَا ہِیَ تَنْعَتُ قِرَاءَ ۃً مُفَسَّرَۃً حَرْفًا حَرْفًا.) (رواہ النسائی : باب التَّرْتِیلِ فِی الْقِرَاءَ ۃِ) ” یعلی بن مملک نے حضرت ام سلمہ (رض) سے نبی اکرم (ﷺ) کی قراءت اور نماز کے بارے میں پوچھا تو ام سلمہ (رض) نے فرمایا کہ تمہیں آپ کی نماز سے کیا واسطہ۔ نبی (ﷺ) نماز پڑھتے پھر اتنی دیر سوتے جتنی دیر آپ نے نماز پڑھی ہوتی، پھر اتنی دیر ہی نماز پڑھتے جتنی دیر آپ نے آرام کیا ہوتا اس طرح پھر اتنی دیر ہی آرام کرتے جتنی دیر آپ نے نماز پڑھی ہوتی یہاں تک کہ صبح ہوجاتی۔ پھر آپ (ﷺ) کی قراءت کے بارے میں فرماتی ہیں کہ آپ بہترین انداز میں، واضح اور حرف حرف کرکے قراءت کیا کرتے تھے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) یَرْفَعُہُ قَالَ سُئِلَ أَیُّ الصَّلاَۃِ أَفْضَلُ بَعْدَ الْمَکْتُوبَۃِ وَأَیُّ الصِّیَامِ أَفْضَلُ بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ فَقَالَ أَفْضَلُ الصَّلاَۃِ بَعْدَ الصَّلاَۃِ الْمَکْتُوبَۃِ الصَّلاَۃُ فِی جَوْفِ اللَّیْلِ وَأَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ صِیَامُ شَہْرِ اللَّہِ الْمُحَرَّمِ) (رواہ مسلم :، باب فَضْلِ صَوْمِ الْمُحَرَّمِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے اور وہ آپ (ﷺ) سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) سے سوال کیا گیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز افضل ہے اور رمضان کے روزوں کے بعد کون سے روزے افضل ہیں۔ آپ نے فرمایا فرض نمازوں کے بعد افضل نماز آدھی رات کے وقت پڑھی جانے والی نماز ہے اور رمضان کے روزوں کے بعد افضل روزہ ماہ محرم کا روزہ ہے۔“ آ پ (ﷺ) کی تہجد کی کیفیت : ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی معظم (ﷺ) عشاء کی نماز کے بعد اور فجر سے پہلے گیارہ رکعت ادا کیا کرتے تھے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک وتر ادا کرتے۔ اس قدر لمباسجدہ کرتے کہ اس دورانیہ میں اگر تم میں سے کوئی پچاس آیات کی تلاوت کرنا چاہے تو کرسکتا۔ جب مؤذن فجر کی اذان کہتا اور صبح نمایاں ہوجاتی تو آپ مختصر دورکعتیں ادا کرتے اور پھر دائیں جانب چند لمحے لیٹ جاتے پھر مؤذن نماز کی اطلاع کرتا تو آپ (ﷺ) گھر سے تشریف لے جاتے۔“ (رواہ البخاری : باب ایذان المؤذنین الائمۃ الصلٰوۃ) مسائل: 1۔ اللہ کے نبی کو تہجد پڑھنے کا حکم تھا۔ 2۔ تہجد کا افضل وقت آدھی رات کے بعد شروع ہوتا ہے۔ 3۔ تہجد میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے۔ تفسیربالقرآن: قرآن مجید میں تہجد کا تذکرہ : 1۔ نماز قائم کرو سورج کے ڈھلنے سے لیکر رات تک اور فجر کے وقت قرآن پڑھا کرو۔ (بنی اسرائیل :78) 2۔ دن کے دونوں کناروں یعنی صبح شام اور رات کی گھڑیوں میں نماز پڑھا کرو۔ (ہود :114) 3۔ سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اللہ کی تسبیح بیان کرو۔ رات کے کچھ اوقات میں اور نماز کے بعد بھی۔ (ق : 39، 40) 4۔ سورج نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے اور رات کے اوقات میں اور دن کے اطراف میں تسبیح و تحمید بیان کیا کریں۔ (طٰہٰ:130)