بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ المزّمل کا تعارف : المزّمل کا لفظ اس سورت کی پہلی آیت کا دوسرا لفظ ہے یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کے دو رکوع ہیں جو بیس آیات کا احاطہ کرتے ہیں۔ المزّمل نبی (ﷺ) کا توصیفی نام ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک رات آپ (ﷺ) کپڑا اوڑھ کر آرام فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المزّمل کی ابتدائی آیات نازل فرمائیں ” اے نبی (ﷺ) ساری رات سونے کی بجائے رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز پڑھا کرو اور اس میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ رات کے وقت اٹھنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا بے شک بھاری کام ہے لیکن یہ اپنے آپ پر ضبط پیدا کرنے اور قرآن مجید پڑھنے کے لیے نہایت موضوع وقت ہے۔“ اے نبی (ﷺ) ! بے شک نبوت کا کام مشکل ترین کام ہے اس راستے میں مشکلات کا آنا فطری بات ہے۔ مگر آپ کو صبر کرنا ہوگا اس لیے ہر حال میں اپنے رب کو اپنا کفیل سمجھو جو مشرق اور مغرب کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ مشکلات پر صبر کرنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان ہونے والی کشمکش کا ذکر کیا ہے اور پھر اہل مکہ کو مخاطب فرمایا کہ ہم نے تمھاری طرف اس طرح کا رسول بھیجا تھا جس طرح کا رسول فرعون کی طرف بھیجا تھا۔ فرعون نے اپنے رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے پوری سختی کے ساتھ پکڑ لیا لہذا فرعون کا انجام اپنے سامنے رکھو اور یاد رکھو کہ تم فرعون اور اس کے ساتھیوں سے طاقتور نہیں ہو۔ جب فرعون اور اس کے ساتھی پکڑے گئے تو انہیں بچانے والا کوئی نہیں تھا جب تمہاری پکڑ کا وقت آئے گا تو تمہیں بھی بچانے والا کوئی نہیں ہوگا اس لیے اپنے آپ کو سیدھے راستے پر ڈال لو ورنہ قیامت کے دن پکڑے جاؤ گے جو حساب و کتاب کا ایسا دن آنے والا ہے جس دن کی شدت اور سختی کی وجہ سے بچے بھی بوڑھے ہوجائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہو کر رہے گا۔ قرآن مجید بہترین نصیحت ہے مگر اس شخص کے لیے جو اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر تہجد کا ذکر کیا گیا اور حکم فرمایا کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیتے رہو جو کچھ تم اپنے لیے آگے بھیجو گے جو آگے بھیجو گے وہ پورے کا پورا اپنے رب کے پاس پاؤ گے اور اپنے کیے پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرنے والا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَآء الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرِ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَأسْتَجِیْبَ لَہُ مَنْ یَسْاَلنِیْ فأُعْطِیَہٗ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَلَہُ) (رواہ البخاری : باب التحریض علی قیام الیل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتے ہیں : کون ہے مجھ سے طلب کرنے والا میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اسکوبخش دوں۔“