سورة الجن - آیت 16

وَأَن لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاءً غَدَقًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور (یہ وحی کی گئی ہے) کہ اگر وہ راستے پر سیدھے رہتے تو ہم انھیں ضرور بہت وافر پانی پلاتے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 16 سے24) ربط کلام : جنوں کے خیالات کی تائید قرآن مجید کے الفاظ میں۔ اس سے پہلے ایماندار جنوں کے خیالات کو قرآن کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور اب اللہ تعالیٰ نبی (ﷺ) کے ذریعے براہ راست اپنے بندوں کو سمجھاتا ہے۔ اے نبی (ﷺ) ! بتلائیں کہ مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ اگر لوگ صحیح راستے پر چلیں تو اللہ تعالیٰ انہیں کثیر پانی سے سیراب فرمائے گا۔ یاد رہے کہ دنیا کی زندگی اور انسانی وسائل کا تعلق پانی سے ہے اس لیے فرمایا کہ ہم انہیں پانی سے سیراب کریں گے یعنی ان کی روزی اور وسائل میں اضافہ فرمائیں گے۔ انہیں پھر بتلائیں کہ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے گا وہ اسے سخت ترین عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اے نبی! انہیں یہ بھی بتلائیں کہ مساجد ” اللہ“ کی ہیں ان میں اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔ ان کا حال یہ ہے کہ جب اللہ کا بندہ یعنی محمد رسول اللہ (ﷺ) اللہ کی عبادت کرنے اور اس کی دعوت دینے کے لیے بیت اللہ میں کھڑے ہوتے ہیں تو یہ لوگ آپ (ﷺ) پر ٹوٹ پڑتے ہیں تاکہ آپ ڈر کر اللہ کی عبادت اور اس کی توحید کی دعوت چھوڑ دیں۔ اے نبی! ان سے ڈرنے کی بجائے کھلے دل سے اعلان فرماتے جائیں کہ میں صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا۔ اے نبی ! انہیں یہ بھی فرمائیں کہ اگر میں اللہ کی عبادت اور اس کی دعوت میں کوتاہی کروں تو مجھے اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا اور نہ ہی مجھے اس کے سوا کوئی اور پناہ دکھائی دیتی ہے۔ میرا کام اللہ تعالیٰ کے پیغام کو لوگوں تک پہچانا ہے لہٰذا یارکھو! جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا، جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہیں ان سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ اس وعدے کو ضرور پا لیں گے، پھر انہیں معلوم ہوگا کہ مدد کرنے میں اور افرادی قوت کے اعتبار سے کون کمزور ہے۔ کفار مالی وسائل اور افرادی قوت کی بنیاد پر نبی (ﷺ) کو ڈراتے اور دھمکاتے تھے تاکہ آپ (ﷺ) توحیدکی دعوت لوگوں تک نہ پہنچائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے بار بار آپ کو ” قل“ کے لفظ سے مخاطب کیا اور حکم فرمایا کہ اے نبی! کہتے جائیں کہ میں اپنے رب کی دعوت اور عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرتا اور نہ ہی میں اس کی خدائی میں اختیارات رکھنے کا دعویٰ کرتاہوں۔ میری دعوت تو یہ ہے کہ میں نہ تمہارے نفع اور نقصان کا مالک ہوں اور نہ اپنے بارے میں کوئی اختیارات رکھتاہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھے پکڑنے پر آئے تو مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اور نہ اس کی پکڑ سے مجھے کوئی چھڑسکتا ہے۔ جہاں تک تمہاری طاقت اور مخالفت کا معاملہ ہے۔ جس دن کی تم تکذیب کرتے ہو اس دن تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ تمہارے مددگار کتنے کمزور ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طاقت اور لشکروں کے مقابلے میں تم کتنے حقیر اور تھوڑے ہو۔ یہاں فرمایا ہے کہ مساجد اللہ کے لیے ہیں ان میں اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں ہونی چاہیے۔ مشہورتابعی حضرت حسن بصری (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے پوری زمین کو مسجدبنایا ہے یعنی جہاں نماز کا وقت ہوجائے وہاں مسلمان نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس لیے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کرنا یا کسی سے مددمانگنا کسی جگہ بھی جائز نہیں۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا مجھے تمام انبیاء (علیہ السلام) پر چھ فضیلتیں عطا کی گئی ہیں : 1۔” مجھے جوامع الکلم کی صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے خصوصی رعب اور دبدبہ سے میری مدد فرمائی ہے۔ 3۔ مال غنیمت میرے لیے حلال کردیا گیا ہے۔ 4۔ میرے لیے ساری زمین کو پاک اور مسجد بنا دیا گیا۔ 5۔ مجھے تمام انسانوں کے لیے رسول بنایا گیا ہے۔ 6۔ مجھ پر سلسلۂ نبوت ختم کردیا گیا ہے۔“ (رواہ مسلم : کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ ) مسائل: 1۔ اللہ کے نبی اپنے رب کی عبادت اور دعوت میں کسی کو شریک نہیں سمجھتے تھے۔ 2۔ اللہ کے نبی لوگوں کے نفع اور نقصان پر اختیار نہیں رکھتے تھے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو کوئی بھی بچا اور پناہ نہیں دے سکتا۔ 4۔ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ 5۔ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمانوں کو جلد معلوم ہوجائے گا کہ وسائل اور افرادی قوت کے اعتبار سے کتنے کمزور ہیں۔ تفسیر بالقرآن : نفع اور نقصان کا مالک صرف ” اللہ“ ہے : 1۔ کیا تم اللہ کے سوا دوسروں کو خیر خواہ سمجھتے ہو جو اپنے بھی نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الرعد :16) 2۔ میں انپے نفع ونقصان کا بھی مالک نہیں۔ (یونس :49) 3۔ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں؟ (المائدۃ:76) 4۔ اگر اللہ تمہیں نقصان میں مبتلا کرنا چاہے تو کون تمہیں اس سے بچائے گا۔ (الفتح :11) 5۔ (اے نبی کریم (ﷺ) آپ فرما دیں کہ میں تمھارے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ (الجن :21)